افغان طالبان کا کنٹرول: کشمیرمیں عسکریت پسندی بڑھ سکتی ہے
11 جولائی 2021
نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا تیزی سے جاری ہے لیکن طالبان کئی افغان اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق افغانستان میں مسلح گروہ کی برتری سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
اشتہار
افغانستان میں نیٹو کا مشن دو دہائیوں کی جنگ کے بعد اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے لیکن افغان قوم کے غیر یقینی مستقبل کے امکانات، بھارت میں سلامتی کے خدشات پیدا کررہے ہیں۔ نئی دہلی میں پالیسی ساز حلقے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے کنٹرول کے سبب خطے میں خصوصاﹰ متنازعہ علاقے کشمیر میں عسکریت پسندی کو مزید تقویت نہیں ملے۔
افغان طالبان کے مطابق انہوں نے افغانستان کے پچاسی فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ ماسکو میں پریس کانفرس کے دوران افغان مذاکرات کار شہاب الدین دلاور نے جمعہ نو جولائی کو کہا کہ افغانستان کے 398 اضلاع میں سے تقریباﹰ 250 پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ واضح رہے طالبان کے اس دعوے کی تاہم غیرجانبدار ذرائع نے تصدیق نہیں کی ہے۔
قبل ازیں شمالی افغانستان میں عسکریت پسند گروہ کے پرتشدد حملے سے بچ کر سینکڑوں افغان فوجی تاجکستان کی طرف فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس بات سے افغانستان میں سلامتی کی تیزی سے خراب ہوتی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
'ایسا محاذ جس میں چین، پاکستان اور طالبان شامل ہیں‘
مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر افغان طالبان اسی طرح اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے اور مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیں گے تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی مسلح عسکریت پسندی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ کار اور سابق بھارتی فوجی افسر پروین سوہنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرطالبان دوبارہ اقتدارمیں آتے ہیں تو کشمیر پر اس کا یقینی طور پر اثر ہو گا۔ سوہنی سمجھتے ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی کے زیر قیادت موجودہ حکومت زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
سوہنی کے بقول، ''طالبان جنگجو مٹی کے فرزند ہیں۔ وہ پہلے ہی ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کا دعوی کر رہے ہیں۔ ایسے میں نیٹو کے انخلا کے بعد، مجھے کشمیر پر اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
ایل او سی پر فائر بندی کا معاہدہ
بھارتی آرمی چیف منوج مکند نے رواں ماہ کے آغاز میں عالمی انسداد دہشت گردی کونسل کے زیر اہتمام ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فائر بندی کے معاہدے کے بعد، کشمیر کی صورتحال میں خاص طور پر مسلح عسکریت پسندی کے حوالے سے نمایاں بہتری واقع ہوئی ہے۔ تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آ سکتی ہے۔
افغانستان: طالبان کی طرف سے طاقت کا بھر پور مظاہرہ
01:50
نئی دہلی میں سکیورٹی امور کی ماہر آکانکشا نارائن کہتی ہیں کہ سن 1989 میں افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد، ماضی میں سوویت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین، چیچنیا، کشمیر اور مشرق وسطیٰ جیسے دیگر غیرملکی مسلح تنازعات میں شریک ہو گئے تھے۔ اس مرتبہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد موجودہ غیرملکی تنازعات میں اِن جنگجوؤں کی شمولیت کے امکانات ہیں۔ اس لیے بھارت کو کشمیر میں عسکریت پسندوں کو شہ ملنے کے حوالے سے خدشہ ہے۔
اشتہار
'کشمیر بدل چکا ہے‘
گزشتہ تین دہائیوں میں بھارتی حکام کی طرف سے کشمیر میں عسکریت پسندوں سے نمٹنے کی خاطر کئی اقدامات لیے گئے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے اعلیٰ پولیس افسران کی طرف سے خطے میں عسکریت پسندی ختم ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلح جنگجو اب فرار ہیں۔
’کشمیری رہنما عالمی حالات کو بھانپ نہیں پائے‘
07:14
This browser does not support the video element.
سکیورٹی امور کے ماہر راہل بیدی کہتے ہیں کہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج اور مقامی پولیس نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سکیورٹی اور انٹیلی جنس کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ بیدی کے بقول، ''بھارت اب بہتر طریقے سے تیار ہے اور پاکستان کی طرف سے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکتا ہے۔‘‘