1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقافغانستان

طالبان کی جانب سے افغانستان میں سرعام پہلی سزائے موت

7 دسمبر 2022

طالبان ترجمان کے مطابق فرح صوبے میں موت کی سزا پانے والا شخص قتل کا مجرم تھا۔ طالبان کی طرف سے اپنے موجودہ دور میں کھلے موت کی سزا پر عمل درآمد کی پہلی مرتبہ تصدیق کی گئی ہے۔

Konflikt in Afghanistan
تصویر: Oliver Weiken/dpa/picture alliance

طالباننے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بدھ کےروز پہلی بار ایک شخص کو سر عام موت کی سزا دی ہے۔ طالبان کے مطابق  سزائے موت  پانے والا شخص قتل کا مجرم تھا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کھلے عام موت کی سزا دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے  اسلامی قانون میں ''آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ نے قصاص کے اس حکم کو عوامی اجتماع میں نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس بیان میں درجنوں عدالتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ طالبان کے ان دیگر نمائندوں کے نام بھی شامل تھے، جو اس سزا پر عمل درآمد کے وقت موجود تھے۔ گزشتہ ماہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ججوں کو اسلامی قانون کے ان پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جن میں سرعام موت کی سزا دینے، سنگسار کرنے، کوڑے مارنے اور چوروں کے اعضاء کاٹنا شامل ہیں۔

طالبان نے اپنے موجودہ دور میں سر عام کوڑے مارنے کی سزائیں تو دیتے آئے ہیں تاہم یہ پہلی بار ہے کہ انہوں نے سر عام سزائے موت دیے جانے کی تصدیق کی ہےتصویر: EMMANUEL DUNAND/AFP via Getty Images

اس کے بعد سے طالبان نے کئی لوگوں کو سرعام کوڑے مارے ہیں لیکن بدھ کو فرح صوبے میں دی گئی موت کی سزا ایسی پہلی بڑی سزا تھی، جسے طالبان نے تسلیم کیا ہے۔

'مجرم کا اعتراف جرم‘

     طالبان ترجمان کی جانب سے جاری کیےگئے اس  بیان میں موت کی سزا پانے والے شخص کا نام تاج میر ولد غلام سرور بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ ہرات کے ضلع انجیل کا رہائشی تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ تاج میر نے ایک شخص کو قتل کر کے  اس کی موٹر سائیکل اور موبائل فون چوری کیا تھا۔

    اس بیان میں مزید کہا گیا ہے،''بعد میں اس شخص کو متوفی کے ورثاء نے پہچان لیا‘‘  اور یہ کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔

طالبان کا گزشتہ دور عوامی سزاؤں سے عبارت

طالبان نے 2001 ء کے اواخر میں ختم ہونے والے اپنے پہلے دور حکومت کے دوران باقاعدہ کھلے عام سزائیں دیتے تھے۔ ان میں کابل کے نیشنل اسٹیڈیم میں کوڑے اور پھانسیوں کی سزائیں بھی شامل تھیں، جن میں مقامی افغانوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔

 سخت گیر اسلام پسند طالبان نے اس بار نرم حکمرانی کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے اس مرتبہ بھی افغانوں کی زندگیوں پر تیزی سے سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔  طالبان کی واپسی کے بعد خاص طور پر خواتین کو عوامی زندگی سے بتدریج ہٹایاجا رہا ہے۔ سرکاری عہدوں پر فائز خواتین اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں یا انہیں گھر میں رہنے کے لیے پیسے دیے جارہےہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کوکسی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت ان کے لیے برقع یا حجاب اوڑھنا ضروری ہے۔

طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد کے مطابق سپریم کورٹ نے موت کی سزا پر عمل درآمد عوامی مقام پر کرنے کا حکم دیا تھاتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

ملک کے بیشتر حصوں میں نوعمر لڑکیوں کے اسکول بھی ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند ہیں۔ زبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی طرف سے حکم دینے سے قبل بدھ کو پھانسی کے کیس کی عدالتوں کی ایک سیریز نے اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی تھی۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ ''اس معاملے کی بہت درست طریقے سے جانچ کی گئی۔ آخر میں انہوں(ججوں) نے قاتل پر بدلے کا شرعی قانون لاگو کرنے کا حکم دیا۔‘‘

طالبان کے سپریم  لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے نہ تو کوئی فلمبندی اور نہ ہی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ طالبان تحریک کی جائے پیدائش اور روحانی مرکز قندھار سے فتووں کے ذریعے حکمرانی کرتے ہیں۔

ش ر ⁄ ک م ( اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں