طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بنا ہی دوحہ سربراہی ملاقات ختم
3 مئی 2023
افغانستان کے معاملے پر دوحہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہونے والی دو روزہ سربراہی ملاقات ختم ہو گئی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس ملاقات میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
اشتہار
افغانستان کے موضوع پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر یکم مئی سے شروع ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کوئی اعلان تو سامنے نہیں آیا مگر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے یہ ضرور کہا ہے کہ اس حوالے سے مستقبل میں ایک اور میٹنگ منعقد کی جائے گی۔
اس میٹنگ کے آغاز سے قبل انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کو یہ تشویش تھی کہ دوحہ سربراہی کانفرنس میں عالمی برادری طالبان کے ساتھ انہیں تسلیم کرنے کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتی ہے اس کے باوجود کہ خواتین ابھی تک اپنی حقوق سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی جسے اس عالمی ادارے نے ایک ایسی ملاقات کا نام دیا تھا جس میں عالمی اقوام اور ادارے افغانستان سے متعلق انسانی حقوق، گورننس، انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات سے متعلق کوششوں کے حوالے سے ایک مشترکہ نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بات اہم ہے کہ اس ملاقات سے قبل طالبان کی حکومت کو باقاعدہ ایک قانونی حکومت تسلیم کیے جانے کے امکان کا تو اظہار نہیں کیا گیا تھا مگر انسانی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔ طالبان نے اگست 2021ء میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، جب 20 سالہ جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو فورسز وہاں سے نکلنے کے اختتامی مراحل میں تھیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق، ’’اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہم رابطہ کاری نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اور بہت سے لوگوں نے ماضی سے سیکھے گئے ہمارے تجربات کی بنا پر مطالبہ کیا کہ رابطہ رکھنا زیادہ مؤثر ہو گا۔‘‘
انہوں نے اس کی وضاحت تو نہیں کی لیکن ان کا اشارہ طالبان کی سابقہ حکومت کی جانب تھا جب 1994ء سے 2001ء تک وہ افغانستان میں حکمران رہے تھے۔
ایک صحافی کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ کسی خاص حالات میں طالبان کے ساتھ براہ راست ملاقات کرنا چاہیں گے، گوٹیرش کا ردعمل تھا، ’’جب ایسا کرنے کے لیے مناسب وقت ہو گا، تو میں یقیناﹰ اس امکان سے انکار نہیں کروں گا۔۔۔ لیکن آج اس کے لیے مناسب لمحہ نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ طالبان کو اس سربراہی ملاقات میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ افغان حکومت اس بات چیت کو رد کرتی ہے۔
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
یہ تصاویر ایران میں جاری عوامی مظاہروں سے متعلق ہیں۔ ان مظاہروں نے کس طرح ایران کو جکڑا ہوا ہے اور کس طرح بین الاقوامی سطح پر مظاہرین کی حمایت جا رہی ہے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
اطالوی دارالحکومت روم کے رہائشیوں کا ایک گروپ ایرانی اور افغان خواتین کی حمایت میں جمع ہو کر یکجہتی کا اظہار کرتا ہوا۔ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے پر طالبان کی مذمت اور فارسی اور دیگر کئی زبانوں میں’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے ان کے احتجاجی پلے کارڈز پر لکھے تھے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر بینرز نذر آتش
ایرانی قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی سے قبل ان کی یاد میں لگائے گئے بینرز اپوزیشن کے پُرتشدد مظاہروں کا نشانہ بنے۔ حالیہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی کئی بار جنرل سلیمانی کی تصاویر کو احتجاج کے طور پر جلایا گیا۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ تین جنوری دو ہزار بیس کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: privat
تہران میں فضائی آلودگی اور شہر کے میئر کی تقریر
تہران میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ صحت مند افراد کو بھی سانس اور دل کے مسائل لاحق ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گھر میں بھی وہ کھڑکیاں کھول کر ہوا کی آلودگی محسوس کر سکتے ہیں۔ تہران کے میئر نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے واقعہ کربلا سے لے کر حالیہ مظاہروں تک ہر چیز پر بات کی اور حکومت کے مخالفین کو ’مسخرہ‘ قرار دیا لیکن فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔
تصویر: hamshahrionline
ایران میں مسیحیوں کے نئے سال کی خوشیاں ماند
گرچہ ایران میں اب بھی عوامی مظاہرے جاری ہیں اور حکومت نے اس کے خلاف جبر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم ان حالات میں بھی ایرانی کے مسیحی باشندے نئے سال کو خوش آمدید کہنے چرچ گئے۔ تہران میں رہنے والے آرمینیائی باشندے ہولی سرکیس چرچ میں جمع ہوئے تاکہ وہاں پرامن طریقے سے اپنی تقریب کا انعقاد کر سکیں۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
زاہدان میں انصاف کی تلاش
زاہدان میں کئی ہفتوں سے ہر جمعہ کو احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں اس شہر میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن احتجاج بدستور جاری ہے۔صوبہ سیستان و بلوچستان میں بھی عوامی بغاوت کی حمایت کی جا رہی ہے۔
تصویر: UGC
ایران کی شطرنج کی نمبر ایک خاتون کھلاڑی کا اسپین کوچ کرنے کا ارادہ
اسلامی جمہوریہ کے پرچم کے ساتھ حجاب کے بغیر قازقستان کے شہر الماتی میں شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کرنے والی ایران میں شطرنج کی نمبر ون خاتون کھلاڑی سارہ خادم الشریعہ اسپین ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ علی رضا فیروزجا کے بعد وہ ایران کی دوسری بہترین شطرنج کھلاڑی ہیں، جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔
تصویر: Lennart Ootes/FIDE/REUTERS
تہران کی آزاد یونیورسٹی میں بسیج کے دفتر میں آتش زدگی
ایران میں طلبا کی ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق، شمالی تہران میں واقع آزاد یونیورسٹی کے بسیج دفتر کو جمعرات 29 دسمبر کی صبح تقریباً 4 بجے ایک نامعلوم شخص نے آگ لگا دی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور دفتر پر آتش گیر مادے کے ساتھ حملہ کیا۔ بظاہر آگ سے خواتین اور بسیج دفتر کے بیرونی حصے کو نقصان پہنچا۔ بسیج ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک نیم فوجی دستہ ہے۔
تصویر: Hamshahri Online
’ اپنی قیمتی جان پر رحم کرو‘
فرانس میں مقیم ایک ایرانی طالب علم محمد مرادی کی خودکشی کے جواب میں حامد اسماعیلیون نے لکھا، ’’کاش میں آپ کے اس فیصلے سے پہلے آپ سے بات کر سکتا اور آپ کو بتاتا کہ ہم اُنہیں شکست دیں گے۔ آپ کی قیمتی اور پیاری زندگی کے ضیاع پر صد افسوس۔‘‘ متعدد ایرانیوں اور لیون شہر کے رہائشیوں نے محمد مرادی کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
تصویر: Maxime Jegat/MAXPPP/dpa/picture alliance
تہران کا بدلا ہوا چہرہ
یہ لندن، پیرس یا نیویارک کی گلی نہیں ہے، یہ کرسمس کے پہلے دن یعنی 25 دسمبر کو تہران کی مرزائی شیرازی اسٹریٹ ہے۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
خاموش احتجاج
شاید سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے شعلے کچھ کم ہو گئے ہوں لیکن ایران کی گلیوں میں جو کچھ ان دنوں نظر آرہا ہے اسے احتجاج کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین سڑکوں پر حجاب کے بغیر اور پُرسکون انداز میں چل رہی ہیں، 40 سال سے جبری حجاب کا بوجھ اپنے سروں اور چہروں سے اتار کر۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
’ ہم ایک جیسے نہیں ہیں‘
اسلامی جمہوریہ ایران میں سزائے موت سنانے اور اس پر عمل درآمد کے خلاف مظاہرے مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ’’آپ صبح 5 بجے اٹھتے اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ میں اسی وقت پھانسی کے خوف میں مبتلا ہوتا ہوں۔ ہم ایک جیسے نہیں ہیں۔‘‘ اردبیلی یونیورسٹی میں یہ تازہ گریفٹی ہے جس پر محسن شکاری اور ماجدرضا رہنورد کے نام درج ہیں۔ ان دونوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
تصویر: UGC
جہالت اور سچائی
یہ مشترکہ تصویر سوشل نیٹ ورکس پر شائع کی گئی۔ دائیں طرف کی تصویر 13 نومبر کو ہونے والے حکومتی مظاہروں اور ’’یورپ کی سخت سردی کے لیے لوگوں کی امداد‘‘ کے لیے ایک کلیکشن پوائنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور بائیں طرف کی خبر گیلان صوبے میں دفاتر اور بینکوں کی بندش سے متعلق ہے۔ ایک صارف نےاس تصویر کی تفصیل میں لکھا، ’’دو تصویروں کے درمیان کا فاصلہ ڈیڑھ ماہ کا نہیں، یہ جہالت اور سچائی کے درمیان کا فاصلہ ہے۔‘‘
تصویر: UGC
دار و رسن اور لہو رستی آنکھیں
ایرانی جشن یلدا سے کچھ دیرقبل ایرانی باشندوں نے دی ہیگ میں ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر دکھایا کہ ایران میں مظاہرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گلے میں رسیاں، ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے اور ایک طرف خون آلود آنکھیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ کا پھانسی کا تختہ اور اس کے جسم پر یورپی یونین کی قینچی۔ اس سے مظاہرین اشارہ دے رہے تھے کہ یورپ ایران میں سزائے موت اور مظاہرین کو کچلنے کےخلاف کچھ کرے۔
تصویر: Phil Nijhuis/ANP/picture alliance
یلدا کی چالیسویں رات
بہت سے ایرانییوں نے اس سال کے یلدا کو خوشی اور مسرت کے ساتھ نہیں بلکہ غم اور سوگ کے ساتھ منایا۔ اس سال بہت سے لوگوں کی ایک نہیں بلکہ کئی قیامت خیز اور طویل راتیں گزریں اور صبح خوف اور بے خوابی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس سال کا یلدا آغا افضلی کے 40 ویں کے موقع پر آیا، جو ایک 19 سالہ نوجوان تھا۔ اسے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ رہائی کے چند دن بعد اپنے گھر میں ہی انتقال کر گیا تھا۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
میکسیکو میں ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
میکسیکو کے متعدد شہریوں نے ملکی دارالحکومت میکسیکو سٹی میں ایران کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر ایرانی عوام کی بغاوت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا اور خاص طور پر امیر نصر آزادانی کو سزائے موت دینے کی مذمت کی۔
تصویر: Gerardo Vieyra/NurPhoto/picture alliance
’یلدا احتجاج‘
اٹھائیس، انتیس اور تیس دسمبر کی ٹیلیفون کالز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ ان کالز میں تمام لوگوں کو مظاہروں اور ہڑتالوں میں حصہ لینے کی دعوت گئی۔ 30 دسمبر کو مظاہرین کے احتجاج کا نقطہ عروج قرار دیتے ہوئے اسے یلدا رات سے تعبیر کیا گیا اور احتجاج کو ’یلدا احتجاج‘ کہا گیا۔ یلدا دراصل طویل ترین رات سے شروع ہونے والا تہوار مانا جاتا ہے۔
تصویر: UGC
ایرانیوں کی بغاوت کی حمایت جرمن دارالحکومت میں
ایران میں ملک گیر احتجاج اور سیاسی قیدیوں کی حمایت میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جرمن دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔ قید کیے گئے مظاہرین میں سے کچھ پر جنگ اور فساد پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور ایران ان لوگوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance
ایرانی عوام کی بغاوت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت
کلکتہ میں فیڈریشن آف ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آف انڈیا نے ایرانی خواتین کی احتجاجی تحریک کی حمایت کی۔ صنفی امتیاز اور پدرسری نظام پر تنقید کرتے ہوئے، بھارتی طلباء نے ایرانیوں کی ملک گیر تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔
ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عوامی بغاوت کی حمایت کے لیے جرمن شہر فرینکفرٹ میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے کے سامنے ایک خیمے میں بھوک ہڑتال اور دھرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ 21 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔
تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance
19 تصاویر1 | 19
سہیل شاہین کے مطابق، ’’اگر وہ ہمیں سننے کو تیار نہیں ہیں اور معاملے سے متعلق ہمارے موقف کو جاننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر وہ ایک قابل اعتماد اور قابل قبول حل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ فیصلے کامیاب نہیں ہو سکتے اور یہ کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے، اس کی اپنی آواز ہے اور افغان چاہتے کہ وہ ہماری آواز سنیں۔
خیال رہے کہ افغانستان کے ایکٹنگ وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اس ہفتے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد جا رہے ہیں جہاں ان کی پاکستانی اور چینی حکام سے ملاقاتیں ہونا ہیں۔