قید میں امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا، آسٹریلوی پروفیسر
1 دسمبر 2019
افغانستان میں طالبان کی قید سے تین برس بعد رہائی پانے والے آسٹریلوی پروفیسر ٹیموتھی ویکس نے کہا ہے کہ وہ ان کے دل میں اپنے اغواکاروں کے لیے کوئی نفرت نہیں۔
اشتہار
پچاس سالہ ٹیموتھی ویکس اور ان کے امریکی ساتھی کیون کنگ کو حال ہی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل کے نتیجے میں رہائی ملی۔
ٹیموتھی ویکس نے بتایا کہ ان کی رہائی کے لیے امریکی فوج نے کئی بار کارروائی کی، مگر یہ فوجی دستے ان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو پائے۔
ایک نیوز کانفرنس میں طالبان سے متعلق اپنے جذبات کے بارے مین ٹیموتھی ویکس نی کہا، ''میں ان سے بالکل نفرت نہیں کرتا۔ بلکہ ان میں سے تو کچھ ایسے تھے، جن کے لیے میرے دل میں احترام اور شفقت کے جذبات ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑے رحم دل تھے اور بھلے لوگ بھی تھے۔ اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر یہ لوگ ان کاموں میں کیسے پڑ گئے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ شاید یہ نہ مانیں، مگر میری نظر میں وہ بس فوجی تھے، جو اپنے کمانڈروں کے احکامات کی تعمیل کررہے تھے۔ ان کے پاس کوئی اور چوئس نہیں تھی۔‘‘
پروفیسر ٹیموتھی ویکس نےکہا کہ امریکی کمانڈوز نے انہیں بازیاب کرانے کی کم از کم چھ بار کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی امریکی خصوصی دستوں نے ایسی کارروائی کی، اس سے چند گھنٹوں قبل ان (مغویوں) کو طالبان نے کسی اور جگہ منتقل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی ہی ایک کارروائی رواں برس اپریل میں بھی کی گئی۔ ویکس کا کہنا تھا کہ انہیں گارڈ نے رات کو دو بجے جگایا اور بتایا کہ داعش کے جہادیوں کی جانب سے ان پر فائرنگ کی جا رہی ہے اور پھر وہیں انہیں ایک سرنگ میں چھپا دیا گیا۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
''مجھے اب لگتا ہے کہ وہ اصل میں امریکی کمانڈوز تھے، جو ہماری رہائی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ میرے خیال میں وہ دروازے کے باہر تک پہنچ گئے تھے۔ اسی لمحے ہمیں زمین میں ایک سے دو میٹر نیچے موجود ایک سرنگ میں منتقل کیا گیا تھا اور اس کے بعد دروازے پر ایک زور دار دھماکا ہوا۔
پھر ہمارے نگرانی پر مامور گارڈ اوپر گئے اور ہم نے مشین گنوں کی زبردست فائرنگ سنی۔ انہوں نے ہمیں سرنگ میں نیچے کی جانب دبایا ہوا تھا، جہاں میں گِرا اور بے ہوش ہو گیا۔‘‘
ویکس نے بتایا کہ انہیں اور ان کے امریکی ساتھی قیدی کیون کنگ کو افغانستان اور پاکستان کے متعدد دورافتادہ سرحدی مقامات پر منتقل کیا گیا، جب کہ اس دوران انہیں نہایت چھوٹے کمروں میں بند کیا جاتا، جن کی کھڑکیاں نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ ان کی زندگی ہر لمحے خطرات کی زد میں تھی، تاہم انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ''مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ ایک دن میں اس قید سے آزاد ہو جاؤں گا۔ ہاں مگر اس میں وقت میری توقع سے زیادہ لگ گیا۔‘‘