1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی مبارک باد کے باوجود افغان ٹاپر طالبہ خوفزدہ کیوں؟

30 اگست 2021

افغانستان میں یونیورسٹی انٹرنس ایگزامنیشن کی ٹاپر سالجی طالبان کی مبارک باد موصول ہونے پر خوش ہونے کے ساتھ حیرت زدہ بھی ہیں۔ وہ ماضی میں طالبات کے ساتھ طالبان کے رویے سے اپنے مستقبل کے تئیں خوفزدہ بھی نظر آتی ہیں۔

Salgy bestand als Beste die Aufnahmeprüfung für Afghanische Universitäten
تصویر: Handout/REUTERS

سالجی کو گزشتہ ہفتے جب پتہ چلا کہ انہوں نے افغانستان یونیورسٹی کے لیے داخلہ جاتی امتحان میں ٹاپ کیا ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کیونکہ انہوں نے تقریباً دو لاکھ اسٹوڈنٹس میں یہ کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم اگلے ہی لمحے ان کی یہ خوشی تشویش میں بدل گئی جب گزشتہ ہفتوں کے دوران افغانستان میں ہونے والے واقعات ان کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔

سالجی نے اس داخلہ جاتی امتحان کے لیے مہینوں سخت محنت کی۔ بعض اوقات تو وہ خود کو ایک کمرے میں قید کر دیتی تھیں حتی کہ وہ کھانا پینا بھی بھول جاتی تھیں۔ جس روز نتائج کا اعلان ہونے والا تھا ان کا پورا کنبہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور جب ریزلٹ کا اعلان ہوا تو سالجی کو لگا کہ ان کی محنت کامیاب ہو گئی۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔

سالجی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے دارالحکومت کابل میں اپنے مکان پر بات چیت کرتے ہوئے کہا،”مجھے ایسا لگا گویا پوری دنیا مجھے تحفے میں مل گئی۔ میری والدہ خوشی سے رونے لگیں اور میں بھی ان کے ساتھ ہی رونے لگی۔"

تاہم سالجی اور ان کے والدین کی یہ خوشی جلد ہی تشویش میں تبدیل ہوگئی۔ دو ہفتے قبل طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کرلینے کے واقعات اور ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے ان کے اعلان نے سالجی اوران کے والدین کی فکر مندیوں میں اضافہ کر دیا۔

سالجی نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم ایک انتہائی غیر یقینی کے دور سے گزر رہے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کے آگے کیا ہونے والا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں سب سے خوش قسمت بھی ہوں اور سب سے بد قسمت بھی۔"

دہلی میں افغان اسکول کے سینکڑوں طلبہ بے یقینی کا شکار

افغانستان کی تقریباً دو تہائی آبادی کی اوسط عمر 25 برس سے کم ہے اور اس پوری نسل نے سن 1996 سے سن 2001 کے دوران ملک پر طالبان کی حکمرانی کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔ جب انہوں نے ملک میں سخت اسلامی قوانین نافذ کردیے تھے۔

 لڑکیوں کے اسکول جانے پر خواتین کو دفتروں میں کام کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی اور لوگوں کو سرعام سزائیں دی جاتی تھیں۔ حتی کہ سن 2001 میں امریکا کی قیادت میں مغربی ملکوں نے حملہ کرکے طالبان کو اقتدار سے معزو ل کر دیا۔ تاہم اس کے بعد سے ملک میں جنگ کا سلسلہ جاری ہو گیا جس میں اب تک ہزاروں افغان ہلاک ہو چکے ہیں۔

سالجی ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں- انہوں نے اس داخلہ جاتی امتحان کے لیے مہینوں سخت محنت کیتصویر: Handout/REUTERS

نئی نسل اپنے مستقبل کے تئیں فکر مند

طالبان نے دو ہفتے قبل جب افغانستان پرکنٹرول کر لیا تو طلبہ کو یقین دہانی کرائی کہ ان کی تعلیم میں کسی طرح کی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا اور ہنر مند اور باصلاحیت پیشہ ور افراد کو ملک نہیں چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔

تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والی اور موبائل فون استعمال کرنے والی، پا پ میوزک اور مخلوط تقریبات کی عادی نئی نسل کو یہ خوف لاحق ہے کہ ان کی یہ آزادیاں چھن سکتی ہیں۔

روئٹرز سے با ت چیت کرنے والے متعدد نوجوانوں نے ان خدشات کا اظہار کیا۔ 21 سالہ گریجویشن کی طالبہ سوسن نبی کا کہنا تھا،”میں نے بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ میں نے آئندہ دس برس کے دوران اپنے لیے کئی اہم اہداف مقرر کئے ہیں۔ ہمیں زندگی کی امید تھی۔ ہمیں تبدیلی کی امید تھی لیکن صرف ایک ہفتے میں انہوں نے ملک پر قبضہ کر لیا اور 24 گھنٹے میں ہمارے خواب ہم سے چھین لیے گئے۔ اب ہمارے پاس کچھ نہیں رہ گیا ہے۔"

’میرا نام طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہے‘

ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے تو طالبان کو پہلی مرتبہ کابل کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے دیکھا۔ طالبان کے بارے میں ان میں سے بیشتر کی معلومات اپنے والدین یا بزرگوں کے ذریعہ سنائی گئی کہانیوں تک ہی محدود ہے۔

طالبان نے نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا اور تعلیم میں کسی طرح کی رکاوٹ پیش نہیں آئے گیتصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

طالبان کی جانب سے مبارک باد

دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک رکن عمار یاسر نے سالجی کو ذاتی طورپر مبارک باد دی ہے۔ انہوں نے سالجی کے ریزلٹ اور میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیابی پر ٹوئٹر کے ذریعہ مبارک باد دی۔

سالجی کو امید ہے کہ اب وہ ڈاکٹر بننے کا اپنا خواب پورا کرسکیں گی۔ حالانکہ موجودہ حالات میں غیر یقینی صورتحال اب بھی برقرار ہے۔

سالجی کہتی ہیں،”اگر طالبان لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے ہیں تو یہ بہت اچھا ہوگا ورنہ میری اب تک کی ساری محنت اکارت ہوجائے گی۔"

روئٹرز نے جن لوگوں سے بات کی ان میں سے بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جانا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ کیسے جا سکیں گے۔

کرکٹ معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، طالبان

سوسن نبی کہتی ہیں،”اگر مجھے لگا کہ یہاں مثبت تبدیلی کی امید ہے تو میں یہاں رہنے کے لیے تیار ہوں۔ میری طرح ہزاروں نوجوان اس کے لیے تیار ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو گا۔"

ج ا/  ص ز  (روئٹرز)

طالبان کی عملداری میں کابل میں نماز جمعہ کی ادائیگی

02:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں