کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیاب پیشقدمی کی وجہ سے بھارتی حکومت اپنی افغان حکمت عملی میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت بھی طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل پر غور کر رہا ہے۔
اشتہار
افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا آخری مراحل میں ہے۔ اسی دوران طالبان نے اپنی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بگڑتی صورتحال میں علاقائی طاقتیں اس جنگ زدہ ملک میں اپنی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
افغان حکومت کو امداد فراہم کرنے والے علاقائی ممالک میں بھارت ایک اہم فریق ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے نئی دہلی حکومت نے بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا حجم تین بلین ڈالرز سے زائد بنتا ہے، جس میں ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ شاہراہوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کا قیام بھی ہے۔ اس کے علاوہ کابل میں پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر میں بھی بھارت کی سرمایہ کاری شامل ہے۔
تاہم افغانستان میں بھارتی منصوبہ جات امریکی سکیورٹی کی مدد کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے تھی۔ اب ستمبر میں جب تمام امریکی فورسز افغانستان سے لوٹ جائیں گی تو اندیشہ ہے کہ یہ شورش زدہ ملک ایک مرتبہ پھر طالبان کے رحم و کرم پر جا سکتا ہے۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں بھارت کے لیے مسائل دوچند ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہو گا۔
بھارتی پالیسی ساز افغانستان کی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ نئی دہلی کو یقین ہے کہ اس کا روایتی حریف ملک پاکستان افغانستان میں مسلم جنگجوؤں کو تعاون فراہم کرے گا۔ یہ جنگجو غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا سے قبل ہی ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہونے کے دعوے کر رہے ہیں، یوں اس وسطی ایشیائی ملک میں بھارت کے اسٹریٹیجک مفادات کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز پر ہی بھارتی حکومت نے قندھار میں سیکورٹی کے پیش نظر وہاں قائم اپنے قونصل خانے سے پچاس سفارت کاروں اور اسٹاف کے دیگر عملے کو نکال لیا تھا۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
روزنامہ انڈین ایکسپریس کے مطابق اگر شمالی صوبے بلخ میں بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیاں جاری رہیں تو بھارت کو اس صوبے کے دارالحکومت مزار شریف میں قائم اپنے سفارتخانے سے اپنا عملہ نکالنا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ مرتبہ جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تو سن انیس سو ننانوے میں مبینہ پاکستان نواز جنگجوؤں نے ایک بھارتی مسافر بردار طیارہ ہائی جیک کر کے قندھار اتار لیا تھا۔
ورجینیا میں کالج آف ولیم اینڈ میری سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر رانی مؤلن کے مطابق ماضی میں بھارت اپنی اس پالیسی پر سختی سے عمل پیرا رہا ہے کہ اس نے طالبان سے بات چیت نہیں کرنا ہے۔
طالبان سے مذاکراتی عمل
نئی دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں سینیئر فیلو مؤلن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ 'دہشت گردوں سے مذاکرات نہ کرنا اور صرف جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بھارتی تعاون فراہم کرنا جیسی پالیسی نے اس وقت میں نئی دہلی کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے‘۔
مؤلن نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکی اتحادی گزشتہ کئی برسوں سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس سال کے اواخر تک طالبان ملک کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ کی کچھ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے طالبان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یہ بھارت کی افغان پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے۔
متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ بھارتی حکومت کے رابطے ایک درست فیصلہ ہے۔ واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا پروگرام سے منسلک ایلزبتھ تھریلکڈ کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کی مدد کے ساتھ طالبان سے بھی مذکرات کرنا ایک عقلمندانہ اقدام ہو گا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ایلزبتھ نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اور وہ اب پاکستان سے ہٹ کر دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بھی روابط پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بات نئی دہلی کے لیے ایک سنہری موقع ہو سکتا ہے۔
مؤلن کے خیال میں اب صورتحال ماضی والی نہیں، جہاں پاکستان کا طالبان پر اثرورسوخ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات میں اسلام آباد کے کردار کے علاوہ حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان اب پاکستان پر انحصار نہیں کر رہے۔
ایک نئی خانہ جنگی
حالیہ حملوں کے تناظر میں افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان امن نہیں چاہتے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ طالبان کے قبضے میں جانے والے تمام علاقوں کو بازیاب کرا لیں گے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
اس صورتحال میں کئی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے وابستہ بھارت کرناڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغانستان ایک بڑی خانہ جنگی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ہزارہ شیعہ ملیشیاؤں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جو اب افغان خفیہ ادارے کے ساتھ مل کر فعال ہو رہی ہے اور ان گروہوں کے پاس بھاری اسلحہ ہے۔
کرناڈ نے تجزیہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ دوسری طرف شمالی اتحاد کا احیا بھی کیا جا رہا ہے۔ طالبان کے دور میں سن انیس سو چھیانوے میں شمالی اتحاد ایک مزاحمتی مسلح گروپ تھا، جس نے ان عسکریت پسندوں کو کڑا وقت دیا تھا۔
جنرل بسم اللہ خان محمدی کو نیا وزیر دفاع بنانا بھی اس بات کا عندیہ ہے کہ شمالی اتحاد کی واپسی ہونے والی ہے۔ ماضی میں وہی شمالی اتحاد کے فوجی کمانڈر تھے۔
افغانستان میں مختلف نسلی گروپوں کے فعال ہونے اور نئی عسکری اتحادوں کے وجود میں آنے کے بعد نہ صرف خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے بلکہ ساتھ ہی افغانستان میں پاکستان کی مداخلت بھی بے اثر ہونے کی توقع ہے۔
اشتہار
'طالبان آسانی اقتدار میں نہیں آئیں گے‘
بھارت کرناڈ کے مطابق اس وقت بھارت کی پوزیشن بہتر ہے کیونکہ صورتحال ویسی نہیں جب آخری مرتبہ طالبان طاقت میں آئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''بھارتی حکومت طالبان کے ساتھ رابطے کر چکی ہے اور موجودہ حالات میں یہ جنگجو افغان تنازعے کا صرف ایک دھڑا ہی ہیں۔‘‘
کرناڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مرتبہ طالبان آسانی کے ساتھ ملک پر قبضہ نہیں کر سکیں گے، ''مستقبل قریب میں ان کا اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہے‘‘۔
افغانستان کے لیے سابق بھارتی مندوب گوتم مکھوپاڈیا کے بقول البتہ اکتوبر تک کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''جب تک افغان حکومت قائم رہے گی، تب تک بھارت کابل حکومت اور افغان عوام کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے گی۔‘‘
گوتم نے ایسے اندازوں کو رد کر دیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت ممکن ہے کہ اس بار طالبان مخلاف دیگر تمام گروہ منظم ہو کر مزاحمت دکھائیں۔
آدیتیہ شرما (ع ب/ ع ح)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔