کابل کی رہائشی مریم عطائی کے بقول اگر طالبان ملکی دارالحکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انتہا پسند طالبان کی کامیاب پیش قدمی پر افغان خواتین اپنی سلامتی سے متعلق خدشات کا شکار ہو چکی ہیں۔
مریم نے اس خوف کا اظہار کیا کہ طالبان دارالحکومت کا کنٹرول سنھبالنے کے بعد سزا کے طور پر انہیں جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک دوبارہ سن انیس سو چھیانوے والے حالات میں جا سکتا ہے، جب طالبان کے انتہا پسندانہ دور میں بالخصوص خواتین کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
طالبان کے دور میں خواتین کی زندگی کیسی تھی؟
سن انیس سو چھیانوے تا سن دو ہزار افغانستان میں طالبان کو اقتدار حاصل رہا۔ اس دوران خواتین کے سخت قوانین وضع کیے گئے تھے۔ نہ صرف انہیں کام سے روک دیا گیا تھا بلکہ نامحرم سے بات تک نہیں کر سکتی تھیں۔ محرم کے ساتھ گھر سے باہر جاتے وقت ان کے لیے برقع لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔
اس دور میں اگر خواتین ان سخت گیر ضوابط سے روگرانی کرتیں تو انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان میں قید، تشدد حتیٰ کہ جان سے مار دینے کی سزا بھی شامل تھی۔ طالبان کے دور میں خواتین کو سر عام کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔
مریم عطائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ جن علاقوں میں طالبان قابض ہو چکے ہیں، وہاں خواتین کے لیے حالات انتہائی ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی کی وجہ سے خواتین بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
تصویر: Saba Rehman/DW
7 تصاویر1 | 7
خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ جولائی کے آغاز پر جب طالبان نے قندھار شہر پر قبضہ کیا تو وہاں عزیز بینک میں ملازم نو خواتین کو وہاں سے فوری طور پر نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ عطائی کو خدشہ ہے کہ ملکی حالات واپس اسی طرف لوٹ رہے ہیں، جب وہاں طالبان کا قبضہ تھا۔
اشتہار
ورکنگ خواتین کا خوف
کابل میں امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر وکٹوریہ فونٹین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان تازہ واقعات کی وجہ سے بالخصوص افغان خواتین کا حوصلہ بری طرح ٹوٹا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں افغان بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد رہی تھی۔
فونٹین نے کہا، ''یہ خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بطور اسٹوڈنٹ یا معاشرے کے لیے کام کرنے کے حوالے سے یہ خواتین شدید تحفظات کا شکار ہو چکی ہیں۔
اگرچہ سن دو ہزار بیس میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بچیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں ایسے بہت ہی کم طالبان ہیں، جو بچیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان کے دور میں لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی تھی۔