1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے افغانستان میں خواتین کا کیا بنے گا؟

14 اگست 2021

کابل کی رہائشی مریم عطائی کے بقول اگر طالبان ملکی دارالحکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انتہا پسند طالبان کی کامیاب پیش قدمی پر افغان خواتین اپنی سلامتی سے متعلق خدشات کا شکار ہو چکی ہیں۔

Foto von Yannis Behrakis: Frau in Afghanistan ohne Schleier
تصویر: Reuters/Y. Behrakis

افغانستان میں انسانی حقوق کی کارکن مریم عطائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے نتیجے میں ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ بیس برسوں سے خواتین کے حقوق کا علم بلند کرتی رہی ہیں،  جو طالبان کے انتہا پسندانہ نظریات کے برخلاف ہے۔

مریم نے اس خوف کا اظہار کیا کہ طالبان دارالحکومت کا کنٹرول سنھبالنے کے بعد سزا کے طور پر انہیں جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک دوبارہ سن انیس سو چھیانوے والے حالات میں جا سکتا ہے، جب طالبان کے انتہا پسندانہ دور میں بالخصوص خواتین کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

طالبان کے دور میں خواتین کی زندگی کیسی تھی؟

سن انیس سو چھیانوے تا سن دو ہزار افغانستان میں طالبان کو اقتدار حاصل رہا۔ اس دوران خواتین کے سخت قوانین وضع کیے گئے تھے۔ نہ صرف انہیں کام سے روک دیا گیا تھا بلکہ نامحرم سے بات تک نہیں کر سکتی تھیں۔  محرم کے ساتھ گھر سے باہر جاتے وقت ان کے لیے برقع لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔

اس دور میں اگر خواتین ان سخت گیر ضوابط سے روگرانی کرتیں تو انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان میں قید، تشدد حتیٰ کہ جان سے مار دینے کی سزا بھی شامل تھی۔ طالبان کے دور میں خواتین کو سر عام کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔

مریم عطائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ جن علاقوں میں طالبان قابض ہو چکے ہیں، وہاں خواتین کے لیے حالات انتہائی ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی کی وجہ سے خواتین بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ جولائی کے آغاز پر جب طالبان نے قندھار شہر پر قبضہ کیا تو وہاں عزیز بینک میں ملازم نو خواتین کو وہاں سے فوری طور پر نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ عطائی کو خدشہ ہے کہ ملکی حالات واپس اسی طرف لوٹ رہے ہیں، جب وہاں طالبان کا قبضہ تھا۔

ورکنگ خواتین کا خوف

کابل میں امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر وکٹوریہ فونٹین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان تازہ واقعات کی وجہ سے بالخصوص افغان خواتین کا حوصلہ بری طرح ٹوٹا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں افغان بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد رہی تھی۔

فونٹین نے کہا، ''یہ خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بطور اسٹوڈنٹ یا معاشرے کے لیے کام کرنے کے حوالے سے یہ خواتین شدید تحفظات کا شکار ہو چکی ہیں۔

اگرچہ سن دو ہزار بیس میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بچیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں ایسے بہت ہی کم طالبان ہیں، جو بچیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان کے دور میں لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی تھی۔

اب ایک مرتبہ پھر طالبان کے اقتدار میں آنے کے امکانات میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں خواتین کے لیے صورتحال دوبارہ خراب ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جمعے کے دن ہی کہا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں عائد کی جانے والی پابندیوں پر دھچکے کا شکار ہیں۔

 

ویسلے جیمز (ع ب / ع ت )

کابل کی خودکفیل خواتین

03:51

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں