طالبان کے رہنما ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی کے تربیت یافتہ
جاوید اختر، نئی دہلی
20 اگست 2021
طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنماؤں میں سے ایک شیر محمد ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت یافتہ ہیں۔ بھارتی فوجی کے ایک سابق جنرل اور ستانکزئی کے بیچ میٹ کا کہنا ہے کہ ستانکزئی مذہب کی جانب کبھی مائل نہیں رہے۔
اشتہار
شیر محمد عباس ستانکزئی نے بھارت کے اہم ترین فوجی تربیتی ادارے دہرہ دون کے انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) کے 1982 بیچ میں تربیت حاصل کی تھی۔60 سالہ ستانکزئی آج طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
افغانستان کا 'شیرو‘
ستانکزئی کے ساتھ تربیت حاصل کرنے والے بھارت کے سابق میجر جنرل ڈی اے چترویدی نے بتایا کہ ستانکزئی جب آئی ایم اے میں داخل ہوئے تو ان کی عمر بیس برس تھی۔ وہ آئی ایم اے کی بھگت بٹالین کے کیرن کمپنی کے 45 جینٹلمین کیڈٹوں میں سے ایک تھے،''ہم لوگ انہیں 'شیرو‘ کے نام سے پکارتے تھے۔وہ خاصے ہٹّے کٹّے تھے تاہم ان کا قد زیادہ اونچا نہیں تھا اور وہ کبھی بھی مذہب کی طرف مائل نہیں نظر آئے۔‘‘
بھارت کے اہم فوجی اعزازات پرم وششٹ سیوا میڈل، اتی وششٹ سیوا میڈل اور سینا میڈل سے اعزاز یافتہ ریٹائرڈ میجر جنرل چترویدی کہتے ہیں،”وہ ہم لوگوں میں کافی مقبول تھے۔ وہ اکیڈمی کے دیگر کیڈٹس کے مقابلے میں تھوڑے بڑے لگتے تھے۔ ان کی شاندار مونچھیں تھیں۔ اس وقت ان کے نظریات میں کسی بھی صورت میں شدت پسندی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک عام افغان کیڈٹ کی طرح تھے جو بھارت میں اپنا وقت انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔"
آئی ایم اے میں آزادی کے بعد سے ہی غیر ملکی کیڈٹوں کو داخلہ ملتا رہا ہے تاہم افغانستان کے کیڈٹو ں کو داخلہ دینے کا سلسلہ 1971ء میں بھارت۔پاکستان جنگ کے بعد شروع ہوا۔
ایک عام افغان نوجوان جیسا
عباس ستانکزئی کے ایک دیگر بیچ میٹ ریٹائرڈ کرنل کیسر سنگھ شخاوت بتاتے ہیں کہ ستانکزئی افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز سے براہ راست آئی ایم اے میں آئے تھے،''وہ عام نوجوان کی طرح تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ایک مرتبہ ساتھ میں رشی کیش گئے تھے اور دریائے گنگا میں تیراکی بھی کی تھی۔ میرے پاس اس دن کی ایک تصویر بھی موجود ہے، جس میں شیرو اور میں آئی ایم اے کے سوئمنگ سوٹ میں ہیں۔ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا اور ہم اختتام ہفتہ پر اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں گھومنے جایا کرتے تھے۔"
ستانکزئی نے افغان نیشنل آرمی میں لیفٹیننٹ کے طور پر جوائن کرنے سے قبل آئی ایم اے میں پری کمیشن کی تربیت مکمل کی تھی۔یہ وہ وقت تھا جب سابقہ سوویت یونین افغانستان کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔
ستانکزئی 1996ء میں افغان آرمی سے الگ ہو کر طالبان میں شامل ہو گئے۔ وہ امریکا سے طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم کرانے میں کلنٹن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں بھی شامل رہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع 1997ء میں ایک رپورٹ میں انہیں طالبان حکومت کا کارگزار وزیر خارجہ بتایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھارت میں قیام کے دوران انگلش سیکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ طالبان کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک بن گئے۔ ان کی انگلش پر مہارت اور فوجی تربیت کافی مدد گار ثابت ہوئی۔جب طالبان نے دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر قائم کیا تو وہاں کے سربراہ کے طور پر تعینات کیے گئے اور سن 2019 میں طالبان کے شریک بانی عبدالغنی برادر کے دوحہ کا دفتر سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے۔
ستانکزئی افغان امن مساعی کے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک ہیں۔
بھارت ستانکزئی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے
بھارت کے ساتھ طالبان کے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے میجر جنرل چترویدی کا خیال ہے کہ ستانکزئی ٹرمپ کارڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔
میجر جنرل چترویدی کا خیال ہے،”بھارت میں گزارے گئے دنوں کی خوشگوار یادیں یقیناً ان کے ساتھ ہوں گی۔ میں کہنا چاہتاہوں کہ یہ بھارتی وزارت خارجہ کے لیے ایک موقع ہے اسے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے آئی ایم اے سے تعلق رکھنے والے ستانکزئی کے دوستوں کے نیٹ ورک کو استعمال کرنا چاہیے۔"
اشتہار
آئی ایم اے کے تربیت یافتہ غیر ملکی فوجی رہنما
آئی ایم اے دہرہ دون میں اس وقت تقریباً 33 ملکوں کے کیڈٹس تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ماضی میں جن اہم پاکستانی فوجی رہنماؤں نے آئی ایم اے سے تربیت حاصل کی ان میں پاکستان آرمی کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد موسی، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان خٹک، سابق وزیر خارجہ کرنل صاحب زادہ یعقوب خان، پاکستان کے کمانڈر ان چیف اور تیسرے صدر جنرل یحیٰ خان شامل ہیں۔
بنگلہ دیش مکتی باہنی کے کمانڈ ر ان چیف جنرل ایم اے جی عثمانی اور پہلے پاکستان اور پھر بنگلہ دیش آرمی میں خدمات دینے والے لیفٹیننٹ جنرل خواجہ وسیع الدین نے بھی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت حاصل کی ہے۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔