طالبان کے خطرے کے باوجود افغان نوجوانوں کا رخ کالج کی طرف
19 ستمبر 2013رحمانی اور ان کے دوستوں کی جانب سے ایک کمرے میں شروع کیے جانے والے بزنس ’اسکول‘ میں پہلے روز کوئی طالب علم پڑھنے کے لیے نہیں آیا۔ مگر آج یہ ایک کمرے کا اسکول کردان یونیورسٹی بن چکا ہے۔ ایک ایسی نجی یونی ورسٹی جہاں آٹھ ہزار سے زائد طالب علم سیاسیات سے لے کر سِول انجینئرنگ تک کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم جامعہ کے چانسلر رحمانی کے بقول یہ کافی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا وژن اس سے کہیں وسیع ہے۔
مگر رحمانی کے خواب کی تکمیل اور افغانستان کی سلامتی کی مجموعی صورت حال ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اگر اگلے برس افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد مالک ایک بار پھر خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ خواب چکنا چور بھی ہو سکتا ہے ۔
افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے اور شاید یہ افغانستان کے اچھے مستقبل کی ایک نوید ہو۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی امر ہے کہ افغانستان اس سطح تک پہنچ گیا ہے۔ بارہ برس قبل طالبان کی حکومت میں افغان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی تھی اور ملک کے پڑھے لکھے افراد ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کر رہے تھے۔
افغان وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکا کے حملے سے قبل سات ہزار آٹھ سو ستر طالب علم کالج جاتے تھے، آج یہ تعداد چھبیس گنا بڑھ کر دو لاکھ چالیس ہزار ہو چکی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کہ افغان حکومت کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ جنگوں کی وجہ سے تباہ حال سرکاری تعلیمی افغانستان کی تعلیمی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ سن دو ہزار چھ میں حکومت نے نجی اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں کو قانونی قرار دے دیا تھا۔
اس وقت افغانستان میں ستر کے قریب نجی تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں چوہتر ہزار کے قریب افغان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں کردان جیسے ادارے بھی ہیں اور وہ بھی جو بین الاقوامی امداد سے چل رہے ہیں۔ ایک نجی درس گاہ ایسی بھی ہے جس کے سربراہ طالبان کے ایک سابق رہنما ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس صورت حال میں بہتری بھی آ سکتی ہے اور ابتری بھی۔ اس کا انحصار افغانستان کی مستقبل کی سیاسی صورت حال پر ہے۔