1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

طالبان کے خلاف افغان خواتین کی پہل

15 جولائی 2024

افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں خواتین ہی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ مغرب کی جانب سے حمایت نہ ملنے سے مایوس ہو کر اب وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے خود ہی نیٹ ورک بنارہی ہیں۔

خواتین کا گروپ افغان معاشرے میں شہری حقوق اور جمہوریت کے متعلق شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہا ہے
خواتین کا گروپ افغان معاشرے میں شہری حقوق اور جمہوریت کے متعلق شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہا ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

مریم معروف ارون 'شنبہ ہائے ارغوانی' تحریک یا پرپل سٹرڈے موومنٹ کی شریک بانی ہیں۔ خواتین کے حقوق کا علمبردار یہ گروپ افغانستان میں خواتین کی آزادیوں پر بڑے پیمانے پر قدغنیں لگانے کے خلاف ہر ہفتے پرامن احتجاج کا اہتمام کرتا ہے۔

یہ گروپ افغان معاشرے میں شہری حقوق اور جمہوریت کے متعلق شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کی بنیاد دارالحکومت کابل میں اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پرقبضے کے بعد رکھی گئی تھی۔

تیس سالہ مریم معروف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"ہم صرف اپنے آپ پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔"

افغانستان: طالبان کی 'اخلاقی پولیس' کا خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن

افغانستان: طالبان حکومت میں اکیلی ماؤں کے حالات؟

وہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اب بھی سرگرم کئی کارکنوں میں سے ایک ہیں جو شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مریم معروف اور ان کے نیٹ ورک میں شامل دیگر خواتین صرف احتجاج تک ہی سرگرم نہیں ہیں۔ چونکہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اب اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے یہ خواتین ان لڑکیوں کو گھر میں جاکر چھپ کر پڑھاتی ہیں۔ وہ اکیلی ماؤں اور ضرورت مند خاندانوں اور یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے بھی امداد جمع کرتی ہیں۔

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم صرف پرائمری اسکول تک

01:52

This browser does not support the video element.

افغانستان میں اپنے بل بوتے پر کام کرنے والی خواتین

اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے معاشرے کی سب سے زیادہ کمزور طبقے کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تقریباً تما م بین الاقوامی تنظیمیں ملک چھوڑ کر جاچکی ہیں اور طالبان کی جانب سے انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی منظم طریقے سے خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

طالبان نے ایسے قوانین اور سیاسی اقدامات کا سلسلہ متعارف کرایا جو ملک بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کو صنف کی بنیاد پر مکمل طورپر مسترد کرتے ہیں۔ خواتین ملازمین کو ملازمت سے واپس بھیج دیا گیا، لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کردیے گئے اور خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

افغانستان سے متعلق دوحہ کانفرنس کا تیسرا دور، طالبان کی شرکت

افغان طالبان سے متعلق بین الاقوامی موقف نرم ہوتا ہوا؟

مریم معروف اپنی ماسٹرز ڈگری کی تعلیم حاصل کررہی تھیں کہ دسمبر 2022 میں طالبان نے خواتین کو یونیورسٹیوں میں جانے پر روک لگادی۔ اندرون اور بیرون ملک تقریباً تمام افغان خواتین کی طرح وہ بھی، خواتین کی نمائندگی کے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے اقوام متحدہ کے اقدام سے ناراض ہیں۔

مریم کا کہنا تھا،" دوحہ اجلاس میں جو ہوا ہم اس سے واقف ہیں،وہ (اقوام متحدہ) افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کے خواہاں ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ افغان عوام اور سب سے بڑھ کر افغان خواتین کو نظر انداز کررہے ہیں۔"

طالبان نمائندوں نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی دوحہ میٹنگ میں شرکت کیتصویر: Zabihullah Mujahid

اقوام متحدہ کی طالبان سے بات چیت

اقوام متحدہ کے پہل کے جواب میں طالبان نمائندوں نے گزشتہ ہفتے دوحہ میٹنگ میں شرکت کی، جس میں 25 ممالک کے سفراء اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کی۔

بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صاف طورپر کہا تھا کہ خواتین کے حقوق کا مسئلہ افغانستان کا "داخلی معاملہ" ہے اور دوحہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ دیگر ممالک کو افغانستان کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کی معاون سکریٹری جنرل روزمیری کارلو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"خواتین کے حقوق طالبان کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ہمیں کہیں سے شروع تو کرنا تھا اس لیے ہم طالبان کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونا چاہتے تھے۔"

افغان مصنف اور ماہر تعلیم حضرت وہریز نے دوحہ اجلاس سے قبل ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،"طالبان جانتے ہیں کہ بین الاقوامی اسٹیج کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔"

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے معاشرے کی سب سے زیادہ کمزور طبقے کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہےتصویر: AFP

پابندیاں، معاشی بحران، غربت

طالبان اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کے خواہاں ہیں اور اپنے اوپر عائد پابندیاں اٹھانے کی مہم بھی چلارہے ہیں۔ ان کا مقصد امریکہ کی طرف سے منجمد کردیے گئے افغان اثاثوں تک رسائی حاصل کرنا ہے۔

حضرت وہیز کا کہنا ہے کہ افغانستان واحد ملک نہیں ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ "افغانستان میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عالمی برداری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے اشرافیہ کی بدانتظامی اور غلط حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرے۔ یہ صرف اس صورت میں ہوگا جب طالبان طاقت ور ممالک، بالخصوص امریکہ اور مغربی ملکوں کے مفادات کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ طالبان امریکہ سے کیے گئے اپنے وعدوں کو نبھائیں گے۔ اس لیے طالبان عوام کو اپناکام خود کرنا ہو گا۔"

خواتین ان کوششوں میں سب سے آگے ہیں۔ مریم معروف کہتی ہیں، "ہمیں اپنی طاقت کو متحد کرنا ہوگا۔ پرپل سٹرڈے موومنٹ نے انسانی حقوق کے تمام کارکنوں، دانشوروں اور اختلاف رائے رکھنے والوں سے اتحاد بنانے اور طالبان کے خلاف زیادہ موثرگھریلو مزاحمت کو منظم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ج ا/   ص ز  (شبنم وان ہیئن)

اصل مضمون جرمن زبان میں شائع ہوا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں