طالبان کے خلاف لڑنے والے دس سالہ لڑکے کا قتل
3 فروری 2016افغان صوبے اُروزگان کی پولیس کے سربراہ رحیم اللہ خان نے بتایا ہے کہ دس برس کے مقامی ہیرو واصل احمد کو باغیوں نے ہلاک کر دیا ہے۔ واصل احمد اپنے چچا کے ہمراہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف عملی طور پر جھڑپوں میں شریک ہونے پر ہیرو کے طور پر پسند کیا جاتا تھا۔ اُس کو باغیوں نے جنوبی صوبے اروزگان کے دارالحکومت ترین کوٹ میں قتل کر کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے انکل کے شانہ بہ شانہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف عملاً شریک ہوتا رہا ہے۔
افغانستان کے انسانی حقوق کے ادارے نے بچے کے قتل کی ذمہ داری اُس کے خاندان، حکومت اور طالبان عسکریت پسندوں پر عائد کی ہے۔ ادارے کے ترجمان رفیع اللہ بیدار نے کہا کہ مقامی پولیس مقتول بچے کو ہیرو بنا کر پیش کرتی تھی۔ بیدار کے مطابق پولیس کو اُس کی شناخت مخفی رکھنے کی ضرورت تھی لیکن اُسے عام کر کے باغیوں کو موقع دیا کہ وہ اُسے ہلاک کر دیں اور یہ افسوسناک ہے کہ ایک طرف نے اُسے مشہور کیا تو دوسرے فریق نے اُسے ہلاک کر دیا۔
واصل احمد کا چچا طالبان کا سابقہ کمانڈر رہ چکا ہے اور اُس نے انہیں چھوڑ کر حکومتی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ حکومت نے اِسے ایک ضلع خاص کا پولیس کمانڈر مقرر کر رکھا ہے۔ اروزگان کی پولیس سربراہ کے مطابق کم سن ہیرو کو نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے اُس کے گھر کے نزدیک گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ رپورٹوں کے مطابق واصل احمد کا والد طالبان کے محاصرے کے دوران ہلاک ہوا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے باپ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی خاطر ہتھیار اٹھائے تھے۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ افغانستان میں حکومت اور باغی بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افغان حکومت چائلڈ سولجرز کی بین الاقوامی ٹریٹی کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک غیرسرکاری تنظیم چائلڈ سولجر انٹرنیشنل کے مطابق افغان نیشنل پولیس بھی کم عمر بچوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ اِس کے علاوہ مقامی پولیس بھی عزت اور حب الوطنی کے تناظر میں چائلد سولجر کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔ چائلڈ سولجر انٹرنیشنل نامی غیرسرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ برس مئی میں اُس کے نمائندوں نے اروزگان کے دارالحکومت ترین کوٹ کے گردونواح میں قائم پولیس چیک پوسٹوں پر بےشمار نوعمر پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹیاں دیتے دیکھا تھا۔