طالبان کے ساتھ براہ راست امریکی مذاکرات، امکانات کیا ہیں؟
19 جولائی 2018
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر تمام امکانات پر غور کیا جا رہے اور اس تناظر میں ٹرمپ کی انتظامیہ کابل حکومت کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
اشتہار
اتوار کے دن نیو یارک ٹائمز نے امریکی حکومت کے حوالے سے بتایا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے سفارتکاروں سے کہا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی کوشش شروع کر دیں۔ اس پیشرفت کو امریکی حکومت میں ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں واشنگٹن حکومت افغان طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے کے حق میں نہیں تھی۔
اسی طرح کی خبر نیوز ایجنسی روئٹرز نے بھی شائع کی، جس میں افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان میں قیام امن کی خاطر طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہو چکی ہے۔
’پاکستان اب طالبان پر اثر و رسوخ کھو چکا ہے‘
04:27
This browser does not support the video element.
اس خبر سے ایک امریکا، پاکستان اور افغانستان میں ایک جوش و ولولہ پیدا ہوا کہ غالبا امریکا افغان طالبان کے براہ راست مذاکرات کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیار ہو گیا ہے لیکن جنرل نکلسن اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اس خبر کی صداقت کو مسترد کر دیا۔
اس صورتحال میں ڈی ڈبلیو نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر غور کر رہی ہے تو جواب میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ’’افغانستان میں قیام امن کی خاطر امریکی حکومت تمام امکانات کا جائزہ لے رہی ہے اور اس تناظر میں افغان حکومت کے ساتھ قریبی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘ مزید یہ کہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کی خاطر مذاکرات کابل حکومت اور طالبان کے مابین ہی ہوں گے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ امریکا، افغان عوام یا حکومت کا متبادل نہیں ہے اور اس لیے پائیدار مذاکرات کے لیے طالبان کو افغان حکومت سے بھی رجوع کرنا ہو گا۔ مزید یہ کہ ایسے کسی بھی مذاکراتی عمل کی قیادت کابل حکومت کے ذمے ہو گی۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران سینیئر امریکی اہلکار پاکستان اور افغانستان کو دورہ کر چکے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دوران امریکی عہدیداروں نے طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست مذاکرات کے لیے ابتدائی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن میں سفارتی امور پر نگاہ رکھنے والے مبصرین نے کہا ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور جنرل نکلسن کے بیانات ایسے امکان کو مکمل رد نہیں کرتے کہ سترہ سالہ افغان جنگ کو ختم کرنے کی خاطر امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات کی کوشش نہیں کر رہا۔
انور اقبال، واشنگٹن (ع ب / ع ت)
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.