1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ مذاکرات پر امریکہ کو بھارت کی تنبیہ

24 جنوری 2012

بھارت نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ سیاسی حل کی کوششوں میں محتاط رہے۔ امریکہ میں تعینات بھارتی سفیر نروپما راؤ نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح ’دہشت گردی کی سیاہ طاقتوں‘ کی فتح بھی ہو سکتی ہے۔

تصویر: AP

نروپما راؤ نے افغانستان میں امریکی قیادت میں جاری عسکری کوششوں کی پُرزور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جاری کوششوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ نروپما راؤ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بالآخر یہ مسئلہ سیاسی طور پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار نروپما راؤ نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔

نروپما راؤ کا کہنا تھا، ’’گو کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بالآخر اس مسئلے کا حل سیاسی ہی ہے، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس کو ایک ایسا مقصد نہیں سمجھ لینا چاہیے جو کہ دیگر تمام مقاصد کو پس پشت ڈال دے۔ یہ صورت حال مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی تاریک قوتوں کی فتح کا سبب بن سکتی ہے۔ ان قوتوں نے خطے کو برباد کیا ہے۔‘‘

پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی مندوب مارک گروس مین نے کابل میں افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا کہ امریکہ بعض طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ قطر میں طالبان کے ایک دفتر کھولنے کی اجازت کی اطلاعات کے تناظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء اور افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کی پالیسی اپنا رہا ہے۔

تاہم واشنگٹن کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے طالبان کو تشدد اور دہشت گردی کا راستہ چھوڑنا ہوگا، اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ روابط ختم کرنا ہوں گے۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا مرحلہ وار انخلاء جاری ہے اور یہ انخلاء سن دو ہزار چودہ تک مکمل کر لیا جائے گا۔

پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی حکومتوں کی کئی دہائیوں سے یہ رائے رہی ہے کہ کابل میں ایک بھارت نواز حکومت اس کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں