1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

طالبان کے مظالم کے شکار افغانوں کے لیے جرمنی کا نیا پروگرام

18 اکتوبر 2022

جرمنی نے طالبان کے ظلم و ستم کے شکار افغان شہریوں کی نقل مکانی کے لیے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا ہے۔ افغانستان میں سول سوسائٹی کے ارکان اور اقلیتوں کو سب سے زیادہ خطرات سے دوچار سمجھا جاتا ہے۔

Afghanistan Protest gegen die Entführung von Studentinnen der Universität Kabul
تصویر: Privat

جرمن وزارت خارجہ اور داخلہ نے طالبان کے ظلم و ستم اور تعاقب کے خطرات سے دوچار افغان شہریوں کے لیے ایک نیا پروگرام متعارف کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت متاثرہ افراد کو جرمنی آنے کی اجازت ہو گی۔

گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے جرمن فوج کے انخلاء کے بعد، افغانستان میں دو دہائیوں کی موجودگی کے دوران جرمن افواج کے ساتھ کام کرنے والے  ہزاروں افغان شہریوں کو جرمنی آنے کی اجازت دی گئی ہے۔

برلن کے اس نئے پروگرام سے افغانستان میں رہنے والی خواتین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم  کارکن، سیاست و انصاف اور دیگر شعبوں سے وابستہ ایسے افراد جنہیں ان کے مذہب، جنس یا جنسی رجحان کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کو بھی افغانستان سے نکالنے اور انہیں موقع فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

’یوکرین جنگ کے سبب پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کو نہ بھلایا جائے‘

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ یہ پروگرام خاص طور پر ان خواتین اور لڑکیوں کے لیے ہے، جن کے نظریات اور اُمیدوں کو گزشتہ موسم گرما سے کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ان کے حقوق پر قدغن لگائی گئی اور ان کی اپنے دفاع کی کوششوں کو پرتشدد طریقے سے دبایا گیا۔

سول سوسائٹی کا کلیدی کردار

اپنا ملک چھوڑنے کی اجازت پانے والے 38 ہزار افغان باشندوں میں سے تقریباً 26 ہزار پہلے ہی جرمنی آ چکے ہیں۔  لیکن ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے، جنہوں نے افغانستان میں وفاقی جرمن فوج اور دیگر جرمن تنظیموں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کام کیا تھا۔

طالبان کی دہشت گردی سے پورے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہےتصویر: AFP

نئے پروگرام کے تحت جرمنی آنے والوں میں صرف افغانستان میں مقیم افغان شہری شامل ہوں گے اور اس کا مقصد سول سوسائٹی بنانے والے گروہوں کے ایک بڑے حصے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ بیئرباک نے کہا، ''افغانستان میں بہت سے لوگ ظلم و ستم اور تشدد کے خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ لوگ جو، ہماری طرح کی سوچ رکھتے تھے، زندہ رہے اور افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے لڑے۔ جرمن سول سوسائٹی بھی اس پروگرام میں اپنا کردار ادا کرے گی، جس کے لیے مرکزی کوآرڈینیشن اور فنڈ وزارت داخلہ کی طرف سے  فراہم کیا جائے گا۔

جرمن فوج کی مدد کرنے والے افغانوں کو جرمنی پناہ دے گا

جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا، ''ہم سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے، تعاون کے نئے طریقے اور ذرائع استعمال کریں گے، جو پہلے موجود نہیں تھے۔‘‘

جرمنی افغانستان میں پروگرام کو کس طرح منظم کرے گا؟

جرمنی کی افغانستان میں اب کوئی سفارتی موجودگی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جرمنی آنے کے خواہشمند جرمن ویزہ کے درخواست دہندگان کی جانچ پڑتال کرنا اور اس امر کا اندازہ لگانا کہ آیا درخواست دہندہ ویزے کے حصول کے لیے وضع کردہ معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں، بہت مشکل ہے۔

جرمنی کے رام اشٹائن ایئربیس پر اترنے والے افغان باشندےتصویر: Andreas Rentz/Getty Images

جرمنی کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کرسٹوفر برگر نے کہا، ''یو این ریفیوجی ایجنسی اور انٹر نیشنل آرگنائزیشن فور مائیگریشن آئی او ایم، جن کے ساتھ ہم ماضی میں دیگر ممالک میں کام کر چُکے ہیں، وہ موجود نہیں  ہیں۔‘‘

شمالی مقدونیہ میں درجنوں افغان اور پاکستانی پکڑے گئے

جرمن حکام اب ان تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جو افغانستان میں موجود ہیں اور یہ بتانے کے قابل ہیں کہ نقل مکانی کر کے جرمنی آنے والوں کے لیے تیار کیے گئے نئے پروگرام کے معیار پر کون پورا اترتا ہے۔ اس بارے میں کرسٹوفر برگر نے میڈیا کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''ہم ان اداروں اور  تنظیموں پر انحصار کرتے ہیں، جو صورت حال کا اندازہ لگانے کے قابل ہیں، جو ایسی سفارشات دے سکتے ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کوئی کس حد تک اس معیار پر پورا اترتے ہیں‘‘۔

پروگرام کی نوعیت

یہ پروگرام ایک نیا تصور ہے، جو اُس سپورٹ کو جاری رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جو جرمنی پہلے ہی ظلم و ستم سے فرار اختیار کرنے والے افغان باشندوں کودے رہا تھا۔ لیکن اسے ایک عبوری فریم ورک کے تحت اُس مقامی امدادی عملے تک محدود کر دیا گیا تھا، جس کے اراکین کو افغانستان میں اقتدار کے دوبارہ طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد سے جرمنی لانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

(الیکس بیری)ک م/ ع ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں