طاہرالقادری کی پاکستان واپسی، حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی
8 جون 2016اس صورت حال میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے پاکستان آکر 17 جون کو پنجاب اسمبلی کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان جلتی پر تیل ڈالنے کا باعث بنا ہے۔
بدھ کے روز لاہور کے منہاج ا لقرآن سیکرٹیریٹ میں وڈیو لنک کے ذریعے کینیڈا (ٹورنٹو) سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ دو سال گزر جانے کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کےشہدا کے لواحقین کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ ان کے بقول، ’’ہم پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے موقعے پر اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔‘‘
اس موقعے پر انہوں نے پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے بھی اپیل کی کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے لواحقین کو انصاف دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ حکومت 988 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ انہوں نے بڑھتے ہوئے ملکی قرضوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کے موجودہ حکمران اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں گے۔
یاد رہے 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاون کی برسی منائی جارہی ہے، اس سانحے میں دو درجن کے قریب افراد پولیس کی ایک کارروائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی ایف آئی آر میں وزیر اعلی شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنا ا للہ کو بھی اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، تاہم بعد میں دوسری جوائینٹ انویسٹیگیشن ٹیم اپنی حتمی رپورٹ میں ان کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایاز خان نے بتایا کہ طاہرالقادری کے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی یہاں میدان گرم ہو چکا ہے، لوڈ شیڈنگ جاری ہے، پانامہ لیکس کے حوالے سے قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی اپنی مدت پوری ہو جانے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں کر سکی ہے اور اپوزیشن جماعتیں فیصلہ کن احتجاجی مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا طاہرالقادری کسی کے اشارے پر کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان آ رہے ہیں۔ ایاز خان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مختلف لوگوں کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس بات پر کسی کو شک نہیں ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا ہے، لوگ مرے ہیں اور مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف ملنا چاہیے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کینیڈا کی شہریت اختیار کر لینے والے طاہرالقادری جو پچھلا دھرنا اپنے دعوؤں کے برعکس بیچ میں چھوڑ کر کینیڈا چلے گئے تھے، کیا احتجاجی عوام اس بار ان پر آسانی سے اعتبار کر لیں گے، ایاز خان کا کہنا تھا، ’’پاکستان کی سیاست بھی دلچسپ ہے یہاں ایسا شخص بھی وزیر اعظم بنا ہے جس کے بچے اور کاروبار ملک سے باہر ہے، یہاں ایک ایسی پارٹی بھی اقتدار میں رہی ہے جس کا سربراہ خود پاکستانی پاسپورٹ چھوڑ کے باہر جا بسا تھا اور وہ کئی عشروں سے باہر بیٹھ کر بھی پارٹی چلاتا رہا ۔ ایک اور ایسا شخص پاکستان کے اہم ترین عہدے پر رہا ہے جس کے بچے پیدا ہی باہر ہوئے ہیں۔‘‘
ایک اور سینئر صحافی افتخار احمد البتہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفت گو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے ڈاکٹر طاہرالقادری کا معمول رہا ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں ہی مذہبی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’احتجاج کرنا طاہر القادری کا حق ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ حکومت کے لیے کوئی بڑی مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔‘‘
ان کے بقول پاکستانی حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے۔ ’’اس سے پہلے بھی عمران خان اور طاہرالقادری بڑے بڑے احتجاجی جلسے کر چکے ہیں ، پیپلز پارٹی اور کئی سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کے خاتمے کے حق میں نہیں ہیں، ایسے میں اس حکومت کی رخصتی کی باتیں میری سمجھ میں تو نہیں آتیں۔ البتہ حکومت خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرتی جا رہی ہے۔‘‘