طبعیات کا نوبل انعام تجاذبی موجیں ثابت کرنے والوں کے نام
عاطف توقیر
3 اکتوبر 2017
رواں برس کا نوبل انعام برائے طبعیات تجاذبی موجوں کی موجودگی ثابت کرنے والے تین سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ماہرین طبعیات رائنر وائس، بیری بارِش اور کِپ تھورن نے ان موجوں کا مشاہدہ کیا تھا۔
اشتہار
منگل کے روز نوبل انعام برائے طبعیات کا اعلان کرتے ہوئے اسٹاک ہوم میں رائل سویڈش اکیڈمی کی جانب سے کہا گیا ہے، ’’اس نے بہت سی چھپی ہوئی دنیاؤں کے دروازے انسانوں پر وا کیے۔‘‘
نوبل انعام کے ساتھ نو ملین سویڈشن کرونے یا ایک اعشاریہ ایک ملین ڈالر کا نقد انعام بھی ان سائنس دانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
رائل سویڈش اکیڈمی کے بیان کے مطابق، ’’دریافتوں کے نئے در ہمارے منتظر ہیں، کیوں کہ ان موجوں کا مشاہدہ کر کے ہم نے ایک کائناتی پیغام وصول کر لیا ہے۔‘‘
سن 1915ء میں آئن اسٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں ان موجوں کی ممکنہ موجودگی کا ذکر کیا تھا، تاہم ان کا مشاہدہ سو سال بعد سن 2015ء میں اس وقت ممکن ہوا، جب سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے لِیگو (لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری) کے تحقیقی پراجیکٹ کے ذریعے ان موجوں کو ریکارڈ کر لیا۔
یہ مشاہدہ ایک اعشاریہ تین ارب نوری سالوں کے فاصلے پر دو بلیک ہولز کے ٹکرانے کی وجہ سے خلا میں پیدا ہونے والی زبردست تجاذبی موجوں کو اس خصوصی رصدگاہ کے ذریعے ریکارڈ کر کے کیا گیا۔ ایک اعشاریہ تین ارب نوری سالوں کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعے کے ظہور کے وقت روشنی کی رفتار سے چلنے والی ان موجوں کو زمین تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا۔ واضح رہے کہ آئن اسٹائن کے نظریے کے مطابق کائنات میں کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی۔
نوبل انعام برائے طبیعیات
نہ نظر آنے والی شعاعیں، انتہائی گرم سورج اور خود بخود تقسیم ہونے والے ایٹم، فزکس غیر معمولی عوامل کی سائنس ہے۔ اس تصویری گیلری میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کن دریافتوں پر سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: Fotolia/miket
’خدائی ذرّے‘ کے لیے 2013ء کا نوبل انعام برائے فزکس
نصف صدی پہلے نوجوان ماہر طبیعیات پیٹر ہگز نے ایک انتہائی اہم ذرّے کو بیان کیا تھا، جو ایک گوند کی طرح اُن تمام بنیادی ذرّوں کو اکٹھا رکھتا ہے، جن سے مل کر مادہ بنتا ہے۔ پیٹر ہگز اور اُن کے بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ساتھی فرانسوا اینگلیئر نے محض تھیوری کے طور پر اس ذرّے کو بیان کیا تھا۔ کہیں 2012ء میں اس ذرّے کو جنیوا کے قریب CERN کی نظریاتی فزکس کی سب سے بڑی یورپی تجربہ گاہ میں ثابت کیا گیا۔
تصویر: 2012 CERN
1901ء: ہڈیاں دکھانے والی شعاعیں
فزکس یا طبیعیات کے شعبے میں دیا جانے والا سب سے پہلا نوبل انعام جرمنی کے کونراڈ روئنٹگن کے حصے میں آیا تھا۔ وہ ایکس رے کے موجد ہیں، جو آج بھی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور دیگر اعضاء کے نقائص کو جانچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ شعاعیں کینسر کا باعث بھی بنتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Denis
1903ء: خود بخود تقسیم ہونے والے ایٹم
فرانس کے انتوآں آنری بیکیرل نے پتہ چلایا تھا کہ چند ایک بھاری دھاتوں کے ایٹمی مرکزے اچانک تقسیم ہو جاتے ہیں، جیسے کہ اس تصویر میں دکھائی جانے والی دھات یورینیم کے ایٹم۔ اس عمل کے دوران یہ ایٹم توانائی کی حامل شعاعیں خارج کرتے ہیں۔ اس طرح بیکیرل نے تابکاری شعاعیں دریافت کیں۔ ماری کیوری اور اُن کے شوہر نے اس عمل کا زیادہ قریب سے تجزیہ کیا۔ ان تینوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: PD
1921ء: روشنی کی لہروں کی قوت
روشنی کسی دھات کے ٹکڑے سے ننھے منے ذرات کو الگ کر سکتی ہے۔ اس فوٹو الیکٹرک اثر کا البرٹ آئن شٹائن نے زیادہ قریب سے تجزیہ کیا۔ اُنہوں نے اس کی وضاحت یوں کی: روشنی اور مادہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ایک دوسرے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ ایسے میں روشنی کی شعاعیں بھی دھات کو بدلنے کی قوت رکھتی ہیں۔ اسی اصول پر آج کل شمسی سیل تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Ramona Heim/Fotolia
1956ء: جدید کمپیوٹر کی ابتدائی شکل
سمارٹ فونز، لیپ ٹاپس اور آئی پیڈز کے لیے ہمیں امریکیوں ولیم شاکلی، جان بارڈین اور والٹر بریٹین کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے ہی سب سے پہلے ٹر انزسٹر یا ایسے برقی سرکٹ بنائے تھے، جو برق رفتاری سے ایک سے دوسری حالت میں جا سکتے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائے گئے کمپیوٹر پروسیسرز ایسے کئی ملین سرکٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تصویر میں دکھایا گیا سکہ سائز کا اندازہ لگانے کے لیے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1964ء: ہمہ جہت اہمیت کی حامل لیزر شعاعیں
روشنی کی ایک ہی طرح کی اور ایک ہی رُخ میں سفر کرنے والی شعاعیں لیزر شعاعیں کہلاتی ہیں۔ ان شعاعوں کی مدد سے رنگا رنگ لیزر شوز کا بھی اہتمام کیا جا سکتا ہے لیکن دھاتیں بھی کاٹی جا سکتی ہیں اور انسانی جلد پر موجود دھبوں کو بھی مٹایا جا سکتا ہے۔ لیزر کی دریافت پر امریکی چارلس ٹاؤنس اور روسیوں نکولائی باسوف اور الیگذانڈر پروخوروف کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
تصویر: Mehr
1967ء: سورج کی شعاعوں کی حقیقت
سٹراس برگ میں پیدا ہونے والے امریکی ہنس بیتھے یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے سورج کی طرح کے ستارے اتنے گرم آخر کیوں ہیں۔ اُنہوں نے پتہ چلایا کہ یہ ستارے اپنے اندر موجود ہائیڈروجن ایٹموں کو پگھلا کر زیادہ بڑے ہیلیم کے ایٹموں میں بدل دیتے ہیں۔ اس جوہری فیوژن کے نتیجے میں توانائی خارج ہوتی ہے، جو شمسی شعاعوں کی شکل میں ہمارے پاس زمین پر پہنچتی ہے۔
تصویر: AP/NASA
1971ء: حیران کن سہ جہتی تصاویر
ہولو گرام کی ایجاد کے لیے ہمیں ہنگری کے انجینئر ڈینس گابور کا شگر گزار ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے اُنہوں نے ہی سہ جہتی تصاویر بنائی تھیں، جن میں اشیاء یا چہرے فضا میں معلق محسوس ہوتے ہیں اور زاویہء نظر کے مطابق اپنی ہیئت تبدیل کرتے ہیں۔ تاہم یہ صرف کھیلنے کی چیز نہیں ہیں بلکہ ہولو گرامز ہی کی بدولت جعل سازوں کے لیے کرنسی نوٹوں کی نقل بنانا مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1986ء: الیکٹرانک مائیکروسکوپ
انتہائی چھوٹے سائز کی چیزوں کے بھی اندر تک جھانکنے کا موقع ہمیں جرمنی کے ایرنسٹ رُسکا نے فراہم کیا، جنہوں نے الیکٹرانک مائیکروسکوپ ایجاد کی۔ اسی آلے کی مدد سے جوؤں کی اس طرح کی تصاویر بنانا ممکن ہے۔ عام مائیکروسکوپ کے مقابلے میں ایسی تصویر ایک ہزار گنا سے زیادہ تفصیلات لیے ہوتی ہے چنانچہ ہم ایسی چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو عام آنکھ سے نظر نہیں آ سکتیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1988ء: وزن میں انتہائی ہلکے ذرات
امریکیوں لیون میکس لیڈرمین، میلون شوارٹس اور جیک سٹائن برگر نے اپنے تجربات سے (دیکھیے تصویر) ثابت کیا کہ مادے کے وزن میں انتہائی ہلکے ذرات یعنی نیوٹرینو بھی وجود رکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ وہ ہماری زمین پر باقی مادوں کے ساتھ تعامل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ تجربات میں اُن کے وجود کو ثابت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: AP
1989ء: ایٹمی گھڑی کے ذریعے وقت کا صحیح تعین
انتہائی درست وقت کے تعین کی بنیاد امریکی نارمن ریمزے نے فراہم کی۔ اُنہوں نے ایک ایک ایٹمی گھڑی کی تیاری کو ممکن بنایا، جو دنیا کی انتہائی درست وقت بتانے والی گھڑی ہے۔ اس گھڑی میں ایک سال میں جو فرق دیکھنے میں آتا ہے، وہ حقیقی وقت سے ایک سیکنڈ کا زیادہ سے زیادہ پچیس ارب واں حصہ بنتا ہے۔ جرمن شہر براؤن شوائیگ میں چار ایٹمی گھڑیاں ہیں۔ جرمنی میں سرکاری طور پر وقت انہی گھڑیوں کے مطابق چلتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Paylessimages
2007ء: چھوٹی سی جگہ پر زیادہ سے زیادہ ڈیٹا
لیپ ٹاپس کی ہارڈ ڈِسکس کا سائز چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے لیکن اُن میں چند سال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بے پناہ مقناطیسی مزاحمت ہے، جو تب وجود میں آتی ہے، جب ڈیٹا سٹور کرنے والے آلات کو ایک مخصوص انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس دریافت کا سہرا جرمنی کے پیٹر گرونے برگ اور فرانس کے البرٹ فیئر کے سر جاتا ہے، جنہیں اس کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: DW/A. Bach
2009ء: انٹرنیٹ میں زیادہ تیزی کے ساتھ سرفنگ
چینی نژاد امریکی ماہر طبیعیات چارلس کیون کاؤ نے ساٹھ کے عشرے میں گلاس فائبر کیبل دریافت کی، جس کے ذریعے ڈیٹا (ویب سائٹس کی تفصیلات یا کسی ٹیلیفون گفتگو) کی جلد اور کسی کمی بیشی کے بغیر ترسیل ممکن ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے الیکٹرانک ڈیٹا کو روشنی کی انتہائی چھوٹی فلیشز کی شکل میں تبدیل کرتے ہوئے گلاس فائبر کیبل کے ذریعے روانہ کیا جاتا ہے، جنہیں دوسرے سرے پر پھر سے برقی امپلسز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011ء: کائنات پھیل رہی ہے
امریکی محققین ساؤل پرل مٹر، برائن شمٹ اور ایڈم ریس نے ثابت کیا کہ کائنات مسلسل پھیلتی اور بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم سائنس ابھی تک یہ نہیں جانتی کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ جو بھی اس راز کا پتہ چلا لے گا، وہ اگلے نوبل انعام کا حقدار ہو گا۔
تصویر: Fotolia/miket
14 تصاویر1 | 14
پیر کے روز نوبل انعام برائے طب کا اعلان کیا گیا تھا، جو امریکی سائنس دانوں جیفری ہال، مائیکل روسباش اور مائیکل ینگ کو دیا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام انسانی جسم میں حیاتیاتی گھڑی (بائیولوجیکل کلاک) کے سرگرمیوں اور اثرات پر تحقیق اور اس کے افعال کی وضاحت پر دیا گیا تھا۔