طبیعات کا نوبل انعام برائے سن دو ہزار آٹھ
8 اکتوبر 2008میڈیسن کے نوبل انعام کی طرح فزکس کا نوبل انعام بھی تین سائنسدانوں میں تقسیم ہوا ہے۔ اِن میں دو جاپانی اور ایک امریکی ہیں۔ طبیعات کے نوبل انعام میں جو امریکی سائيسدان ہیں اُن کا نام Yoichiro Nambu ہے۔ جب کہ فزکس کے دو جاپانی سائنس دانوں میں ایک Makoto Kobayashi اور دوسرے Toshihide Maskawa ہیں۔ یہ دونوں سائنسدان بھی عالمی شہرت کے حامل ہیں اور اِن کی ریسرچ انتہائی معتبر مانی جاتی ہے۔ اِن سائنسدانوں کا کام مادے کے بنیادی ذرہ کوراکس پر ہے۔ یہ ریسرچ ذراتی طبیعات کے زمرے میں آتی ہے۔
امریکی سائنسدان Yoichiro Nambu کا پیدائش کا ملک بھی جاپان ہے اور وہ اب امریکی شہر شکاگو کی یونی ورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اِن کو فزکس کے نوبل انعام کا آدھا حصہ دیا جائے گا اور بقیہ آدھا دونوں جاپانی ماہرین طبعیات میں تقسیم ہو گا۔
امریکی سائنسدان Yoichiro Nambu کو ذراتی فزکس میں اُس طریقہ کار کی دریافت پر نوبل انعام دیا گیا جس سے معلُوم ہو سکا ہے کہ اگر اچانک ذیلی جوہری ذرے یا سب ایٹم کو توڑنے سے جو ممکنہ نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ کس طرح مادے کی ہیت کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔
جب کہ دونوں جاپانی سائنسدان نوبل انعام سے اِس لئے نوازے گئے جب ذیلی جوہری ذرے کو اچانک توڑ دیا جاتا ہے تو پھر اُن کی مدد سے فطرت میں موجود مادے کے اندر کوارک ذرےکے کم از کم تین خاندانوں کی موجودگی کے بارے میں حتمی بات کی جا سکتی ہے۔
ذراتی طبیعات میں کوارک ذرات وہ ہیں جو مادے کے اندر تھرمل یا حرارتی توازن کو برقرار رکھنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ فطرت کے اندر موجود مادے میں کوارک آزاد ذرے کے طور پر قائم نہیں رہ سکتے تو اپنی ہیت کو برقرار رکھنے کے لئے یہ مرکب صورت میں رہتے ہیں۔ کوارک کے مطالعے کے لئے پارٹیکل ایکسیلیٹر اور کاسمک شعاعوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
جاپانی نوبل انعام یافتہ توشی ہائی ڈی ماسکاوا کیوٹو شہر میں رہتے ہیں اور وہاں کی Kyoto Sangyo University میں نظریاتی طبعیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ اپنی ذات اور تحقیق میں گُم انسان تصور کئے جاتے ہیں اور ابھی تک اُن کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہے۔
فزکس کے نوبل انعام کو مشکل ترین تصور کیا جاتا ہے کیونکہ فی الوقت جس رفتار سے سائنس کے اِس شعبے میں نئے نئے زاویے سامنے آ رہے ہیں وہ حیران کُن ہیں۔ فلکیاتی مدار سے لے کر انتہائی باریک ترین نینو سطح پر کمیت ناآشنا پووٹان کی حرکت پر ماہرین فزکس کی نگاہیں جمی ہیں اور ہر روز قدم مسلسل آگے اُٹھ رہے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ تجسس کی معراج ہے کہ انسانی دماغ علم و آگہی کے ایسے دریچے کھولنے میں مصروف ہے جن کی مثال ممکن نہیں۔
رائل سویڈش اکیڈمی برائے سائنس نے منگل کو فزکس کا نوبل انعام حاصل کرنے والے کے ناموں میں آدھ گھنٹے کی تاخیر کردی تھی جو کافی حرانی کا باعث تھی۔