طبی امداد کی امریکی بندش سیاسی بلیک میل ہے، فلسطینی ردعمل
9 ستمبر 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت اسرائیل میں قائم چھ ہسپتالوں کی فنڈنگ روکنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یروشلم میں قائم ان ہسپتالوں میں زیادہ تر فلسطینی مریضوں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ پچیس ملین ڈالر کی ان رقوم کو ’زیادہ ترجیحی بنیادوں پر چلائے جانے والے دیگر منصوبہ جات کے لیے مختص کیا جائے گا‘۔
تاہم اس پیشرفت پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یروشلم میں قائم ایک ہسپتال سے وابستہ باسم ابو لیبہ نے کہا ہے کہ امریکی مدد سے یروشلم میں قائم ان طبی مراکز کا چالیس فیصد خرچہ پورا ہوتا ہے۔ انہوں کہا کہ اس امداد کی بندش سے ’انتہائی سنگین‘ نتائج برآمد ہوں گے۔ فلسطینی اتھارٹی نے بھی امریکی حکومت کے اس اعلان پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان احمد شامی نے کہا ہے، ’’یہ امن قائم کرنے کا فارمولا نہیں ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکومت کا یہ اقدام دراصل اسرائیل میں پائے جانے والے اس کٹر دائیں بازو کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے، جس کے تحت فلسطینیوں کو سزا دے کر ان کی آزادی کے حق پر سمجھوتہ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن ہنان عشراوی نے بھی اس امریکی اعلان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سیاسی بلیک میل کا یہ عمل اخلاقی اور انسانی شائستگی کی بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس امریکی فنڈنگ سے اسرائیل میں ایسے فلسطینیوں کا علاج کیا جاتا تھا، جو شدید امراض کا شکار ہوتے ہیں اور جن کا علاج مغربی اردن یا غزہ میں ممکن ہی نہیں ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی UNRWA نامی اس ایجنسی کی فنڈنگ بھی روک دی تھی، جو فلسطینی مہاجرین کے لیے سرگرم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی یورپی ممالک نے اس امریکی فیصلے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سن دو ہزار سترہ کے دوران واشنگٹن حکومت کی طرف سے UNRWA کے لیے 365 ملین ڈالر مختص کیے گئے تھے، جو ترقیاتی اور انسانی بنیادوں پر چلائے جانے والے امدادی منصوبوں پر صرف کی گئی تھیں۔ امریکا کی طرف سے اس فنڈنگ کی کمی کے باعث فلسطینی مہاجرین کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے