طب کا نوبل انعام ’باڈی کلاک میں جھانکنے والے‘ ماہرین کے نام
مقبول ملک اے پی
2 اکتوبر 2017
طب کا امسالہ نوبل انعام تین امریکی محققین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تینوں سرکردہ سائنسدان اس لیے اس اعزاز کے حقدار ٹھہرائے گئے کہ وہ انسانی جسم میں کام کرنے والے ’باڈی کلاک میں جھانکنے‘ میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اشتہار
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جن تین سرکردہ طبی ماہرین کو سال رواں کا یہ انعام مشترکہ طور پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان کا تعلق امریکا کی تین مختلف یونیورسٹیوں سے ہے۔
سٹاک ہوم میں نوبل کمیٹی کی طرف سے دو اکتوبر کو کیے گئے ایک اعلان کے مطابق سال 2017ء کے لیے میڈیسن کا یہ نوبل انعام جیفری ہال، مائیکل روسبَیش اور مائیکل یَنگ کو مشترکہ طور پر دیا جائے گا۔ ان میں سے Jeffrey Hall کا تعلق Maine یونیورسٹی سے ہے اور Michael Rosbash کا تعلق Brandeis یونیورسٹی سے جبکہ Michal Young راک فیلر یونیورسٹی کے ایک ریسرچر ہیں۔
نوبل کمیٹی کے مطابق ان ماہرین کو یہ انعام انسانی ڈی این اے سے ایک ایسا جین کامیابی کے ساتھ علیحدہ کرنے پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو انسانی جسم کی روزمرہ کی کارکردگی کے اندرونی لیکن بہت مربوط توازن کو کنٹرول کرتا ہے۔
نوبل کمیٹی کے مطابق یہ ماہرین اپنی گراں قدر تحقیق کے ذریعے یہ دکھانے میں کامیاب رہے کہ انسانی جسم میں ’حیاتیاتی کلاک‘ کہلانے والا مربوط نظام کیسے کام کرتا ہے۔ ’جسمانی کارکردگی کا یہ متوازن تسلسل‘ Circadian rhythms بھی کہلاتا ہے اور اسی نظام کے تحت انسانی جسم دن کے مختلف حصوں میں خود کو ایک ’باڈی کلاک‘ کے ذریعے نیند کی ضرورت، رویوں، ہارمونز کی سطح، نظام ہضم اور جسمانی درجہ حرارت جیسے پہلوؤں سے مجموعی طور پر مربوط رکھتا ہے۔
ان تینوں امریکی ماہرین کو نوبل انعام کے ساتھ نو ملین سویڈش کرونے یا 1.1 ملین امریکی ڈالر کے برابر رقم بھی دی جائے گی، جو ان تینوں میں برابر تقسیم کر دی جائے گی۔
گزشتہ برس طب کا نوبل انعام جاپان کے خلیاتی حیاتیات کے معروف ماہر یوشی نوری اوسومی کو دیا گیا تھا، جنہوں نے اس بارے میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہونے والی تحقیق کی تھی کہ اپنی انتہائی پیچیدہ ترین حالت میں انسانی خلیے کس طرح کام کرتے ہیں۔
نوبل کمیٹی کی طرف سے ہر سال مختلف شعبوں میں متعدد انعامات دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے سال رواں کے لیے پیر کے روز طب کے انعام کے حقدار ماہرین کے ناموں کے اعلان کے بعد فزکس کے نوبل انعام کے حقدار کا اعلان کل منگل تین اکتوبر کو اور کیمسٹری کے نوبل انعام کے حقدار یا حقداروں کے ناموں کا اعلان بدھ چار اکتوبر کے روز کیا جائے گا۔
طب کا نوبل انعام: بےمثال کامیابیاں
تصویر: picture-alliance/ZB
2013ء کا نوبل انعام خلیاتی تحقیق کے لیے
رواں برس کے لیے طب کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ انعام خلیوں میں مختلف مادوں کی درست منتقلی کے لیے مشترکہ طور پر جیمز روتھمین، رینڈی شیکمین اور تھوماس زُوڈہوف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images
1902ء: قصور وار مچھر ہے
برطانوی محقق رونلڈ رَوس نے پتہ لگایا تھا کہ مچھر ملیریا کا باعث بنتے ہیں۔ آج بھی سالانہ 300 ملین لوگ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں سے تین ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ تاہم رَوس کی تحقیق کی بدولت اس مرض کے علاج کی جانب پیش رفت ممکن ہوئی۔
سوئس ماہرِ طب پال ہیرمان میولر نے پتہ لگایا تھا کہ کیمیائی مادہ ڈی ڈی ٹی حشرات کو مارتا ہے لیکن جانوروں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس دریافت پر ڈی ڈی ٹی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کیڑے مار دوا بن گئی تھی۔ بعد ازاں اسے ماحول بالخصوص پرندوں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا۔ تاہم مچھروں کے خلاف اسے اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1905ء: ٹی بی کا باعث بیکٹیریا
تپ دِق کے باعث جرثومے کا پتہ رابرٹ کوخ نے چلایا تھا۔ تپ دِق یا ٹی بی آج بھی دنیا بھر میں وبائی مرض کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کا علاج ممکن ہے جو وقت لیتا ہے۔
تصویر: AP
1912ء: اعضا کی پیوند کاری
فرانسیسی سرجن الیکسی کارَیل نے خون کی نالیوں اور پورے کے پورے اعضا کی پیوند کاری میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے خون کی پھٹی ہوئی نالیوں کو جوڑنے کی تکنیک اور اعضا کو اسٹور کرنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ آج دنیا پھر میں ڈاکٹر سالانہ ایک لاکھ اعضا کی پیوند کاری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1924ء: دل کی دھڑکن
ہالینڈ کے ڈاکٹر وِلَیم آئنتھوفن نے الیکٹرو کارڈیو گرام یا ای سی جی کا طریقہ تشکیل دینے کے بعد اسے اس حد تک ترقی دی کہ وہ جدید طب میں دل کی دھڑکن جانچنے اور دیگر امراضِ قلب کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا۔
تصویر: Fotolia
1930ء: خون کے چار گروپ
آسٹریا کے ماہرِ طب کارل لانڈشٹائنر نے دریافت کیا تھا کہ دو اقسام کے خون کو ملانے سے اکثر لوتھڑے بن جاتے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے خون کی مختلف اقسام (اے، بی، اور او) کو اس کی وجہ قرار دیا۔ بعد میں ان کے ساتھیوں نے خون کے ایک اور گروپ اے بی کا پتہ بھی لگا لیا۔ اس پیش رفت سے خون کا محفوظ انتقال ممکن ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1939ء، 1945ء اور1952ء: بیکٹیریا کے خلاف دوائیں
اینٹی بائیوٹکس ادویات دریافت کرنے والے اور بنانے والوں کو تین نوبل انعام دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پنسلین دریافت کرنے والے الیگزینڈر فلیمنگ (1945ء) کو دیا گیا۔ اینٹی بائیوٹکس آج بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی ادویات ہیں جو اکثر جان بچانے میں معاون ہوتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Nenov Brothers
1956ء: سیدھا دل تک
جرمن فزیشن وَیرنر فورسمان نے اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے گھٹنے یا ہاتھ کی شریانوں کے راستے دل تک ایک نالی بھیجنے کا طریقہ دریافت کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ تجربہ خود پر کیا۔
تصویر: picture-alliance/Andreas Gebert
1979ء اور 2003ء: انسانی جسم
انسانی جسم کو اندر سے دیکھنا ہو تو اس کے لیے پہلے صرف ایکس ریز کا طریقہ استعمال ہوتا تھا۔ اب مزید طریقے بھی دریافت کر لیے گئے ہیں جن میں سی ٹی اور ایم آر آئی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2008ء: وائرس سے پھیلنے والا سرطان
جرمن سینٹر فار کینسر ریسرچ کے ہارالڈ سُئر ہاؤزَن کی تحقیق سے پتہ چلا کہ انسانی رسولی کا وائرس سروائیکل کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ اس دریافت سے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے میں مدد ملی۔
تصویر: AP
2010ء: ٹیسٹ ٹیوب بچے
رابرٹ ایڈورڈز نے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے طریقے کو واضح طور پر ترقی دی۔ اس طریقے سے پہلا بچہ 1978ء میں انگلینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ In-vitro کہلانے والا یہ طریقہ اب مزید جدت اختیار کر چکا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں اس طریقے سے پانچ ملین سے زائد ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB
12 تصاویر1 | 12
اسی ہفتے جمعرات کے روز ادب کے نوبل انعام کی حقدار شخصیت کے نام کا اعلان کیا جائے گا جبکہ جمعے کے روز ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں یہ اعلان کیا جائے گا کہ امسالہ نوبل امن انعام کس شخصیت یا کن شخصیات کو دیا جائے گا۔