طب کا نوبل انعام: کالے یرقان کا وائرس تلاش کرنے والوں کے نام
5 اکتوبر 2020
میڈیسن کا نوبل پرائز ہاروی آلٹر، مائیکل ہاؤٹن اور چارلس رائس کو دیا گیا ہے۔ ان تینوں سائنسدانوں نے کالے یرقان یا ہیپاٹایٹس سی کا باعث بننے والے وائرس دریافت کیا تھا۔
اشتہار
جیوری
طب کا انعام دینے والی جیوری کے مطابق انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں نے اپنی محنتِ شاقہ سے ایسے وائرس کو دریافت کیا جو انسانی خون میں جنم لیتا ہے، جس سے اب تک کئی انسانی جانیں موت کے منہ جا چکی ہیں۔ مزید کہا گیا کہ یہ عالمی سطح پر پایا جانے والا صحت کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جیوری نے ان تین سائنسدانوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے خون کے انتہائی حساس ٹیسٹون سے حاصل ہونے والے نتائج کا مشاہدہ جاری رکھتے ہوئے وائرس کی نشاندہی کی جو اس کے علاج کا باعث بنا اور اب کئی ملکوں میں کیا جا رہا ہے۔
انعام حاصل کرنے والوں کا مختصر تعارف:
ہاروی جیمز آلٹر
پچاسی سالہ امریکی سائنسدان نیو یارک میں رہتے ہیں۔ وہ امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ برائے ہیلتھ سے منسلک رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ہیپاٹائٹس سی وائرس کی دریافت سن 1970 کی دہائی میں کی تھی۔ ان کی پیدائش نیویارک سٹی میں آباد ایک یہودی خاندان میں ہوئی تھی۔
چارلس ایم رائس
اڑسٹھ سالہ امریکی سائنسدان کیلیفورنیا یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ ان کی ریسرچ کا شعبہ وائرولوجی یا وائرس ہے۔ انہیں جرمن انعام رابرٹ کوخ پرائز سن 2015 میں دیا گیا تھا۔ وہ اعلیٰ امریکی تنظیم برائے سائنسی ترقی و ترویج سے بھی منسلک ہیں۔ انہوں نے کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ میں وابستگی کے دوران ہیپاٹایٹس سی کے وائرس پر ریسرچ کی تھی۔
ستر سالہ برطانوی سائنسدان مائیکل ہاؤٹن نے سن 1977میں کنگز کالج لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنی ریسرچ ٹیم کے ساتھ سن 1989 میں موذی ہیپاٹایٹس وائرس پر ریسرچ مکمل کی تھی۔ وہ اس وقت البیرٹا یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔
گزشتہ برس فزیالوجی یا میڈیسن کا نوبل انعام ولیم کائلین اور گریگ سیمینزا اور ایک برطانوی ریسرچر پیٹر ریٹکلف کو دیا گیا تھا۔ رواں برس بھی طب کا نوبل انعام پچھلے سال کی طرح دو امریکیوں اور ایک برطانوی کو دیا گیا۔ اس انعام کی مالیت ساڑھے نو لاکھ امریکی ڈالر ہے، جو تینوں سائنسدانوں میں برابر تقسیم کی جائے گی۔ اس کے علاوی ایک سرٹیفیکیٹ اور طلائی میڈل بھی دیا جاتا ہے۔
سن 2020 میں دیا جانے والا یہ پہلا نوبل انعام ہے، اب اگلے دنوں میں فزکس (طبعیات)، کیمسٹری (کیمیا)، ادب اور امن کے علاوہ الفریڈ نوبل کی یاد میں اقتصادیات کے پرائز کا علان کیا جائے گا۔
طب کا نوبل انعام: بےمثال کامیابیاں
تصویر: picture-alliance/ZB
2013ء کا نوبل انعام خلیاتی تحقیق کے لیے
رواں برس کے لیے طب کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ انعام خلیوں میں مختلف مادوں کی درست منتقلی کے لیے مشترکہ طور پر جیمز روتھمین، رینڈی شیکمین اور تھوماس زُوڈہوف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images
1902ء: قصور وار مچھر ہے
برطانوی محقق رونلڈ رَوس نے پتہ لگایا تھا کہ مچھر ملیریا کا باعث بنتے ہیں۔ آج بھی سالانہ 300 ملین لوگ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں سے تین ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ تاہم رَوس کی تحقیق کی بدولت اس مرض کے علاج کی جانب پیش رفت ممکن ہوئی۔
سوئس ماہرِ طب پال ہیرمان میولر نے پتہ لگایا تھا کہ کیمیائی مادہ ڈی ڈی ٹی حشرات کو مارتا ہے لیکن جانوروں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس دریافت پر ڈی ڈی ٹی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کیڑے مار دوا بن گئی تھی۔ بعد ازاں اسے ماحول بالخصوص پرندوں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا۔ تاہم مچھروں کے خلاف اسے اب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1905ء: ٹی بی کا باعث بیکٹیریا
تپ دِق کے باعث جرثومے کا پتہ رابرٹ کوخ نے چلایا تھا۔ تپ دِق یا ٹی بی آج بھی دنیا بھر میں وبائی مرض کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم اس کا علاج ممکن ہے جو وقت لیتا ہے۔
تصویر: AP
1912ء: اعضا کی پیوند کاری
فرانسیسی سرجن الیکسی کارَیل نے خون کی نالیوں اور پورے کے پورے اعضا کی پیوند کاری میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے خون کی پھٹی ہوئی نالیوں کو جوڑنے کی تکنیک اور اعضا کو اسٹور کرنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ آج دنیا پھر میں ڈاکٹر سالانہ ایک لاکھ اعضا کی پیوند کاری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1924ء: دل کی دھڑکن
ہالینڈ کے ڈاکٹر وِلَیم آئنتھوفن نے الیکٹرو کارڈیو گرام یا ای سی جی کا طریقہ تشکیل دینے کے بعد اسے اس حد تک ترقی دی کہ وہ جدید طب میں دل کی دھڑکن جانچنے اور دیگر امراضِ قلب کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا۔
تصویر: Fotolia
1930ء: خون کے چار گروپ
آسٹریا کے ماہرِ طب کارل لانڈشٹائنر نے دریافت کیا تھا کہ دو اقسام کے خون کو ملانے سے اکثر لوتھڑے بن جاتے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے خون کی مختلف اقسام (اے، بی، اور او) کو اس کی وجہ قرار دیا۔ بعد میں ان کے ساتھیوں نے خون کے ایک اور گروپ اے بی کا پتہ بھی لگا لیا۔ اس پیش رفت سے خون کا محفوظ انتقال ممکن ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1939ء، 1945ء اور1952ء: بیکٹیریا کے خلاف دوائیں
اینٹی بائیوٹکس ادویات دریافت کرنے والے اور بنانے والوں کو تین نوبل انعام دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پنسلین دریافت کرنے والے الیگزینڈر فلیمنگ (1945ء) کو دیا گیا۔ اینٹی بائیوٹکس آج بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی ادویات ہیں جو اکثر جان بچانے میں معاون ہوتی ہیں۔
تصویر: Fotolia/Nenov Brothers
1956ء: سیدھا دل تک
جرمن فزیشن وَیرنر فورسمان نے اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے گھٹنے یا ہاتھ کی شریانوں کے راستے دل تک ایک نالی بھیجنے کا طریقہ دریافت کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ تجربہ خود پر کیا۔
تصویر: picture-alliance/Andreas Gebert
1979ء اور 2003ء: انسانی جسم
انسانی جسم کو اندر سے دیکھنا ہو تو اس کے لیے پہلے صرف ایکس ریز کا طریقہ استعمال ہوتا تھا۔ اب مزید طریقے بھی دریافت کر لیے گئے ہیں جن میں سی ٹی اور ایم آر آئی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2008ء: وائرس سے پھیلنے والا سرطان
جرمن سینٹر فار کینسر ریسرچ کے ہارالڈ سُئر ہاؤزَن کی تحقیق سے پتہ چلا کہ انسانی رسولی کا وائرس سروائیکل کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ اس دریافت سے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے میں مدد ملی۔
تصویر: AP
2010ء: ٹیسٹ ٹیوب بچے
رابرٹ ایڈورڈز نے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے طریقے کو واضح طور پر ترقی دی۔ اس طریقے سے پہلا بچہ 1978ء میں انگلینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ In-vitro کہلانے والا یہ طریقہ اب مزید جدت اختیار کر چکا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں اس طریقے سے پانچ ملین سے زائد ٹیسٹ ٹیوب بچے پیدا ہو چکے ہیں۔