طرابلس میں حریف ملیشیا گروپوں کے مابین شدید لڑائی
13 جولائی 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے طرابلس کے شہریوں اور عینی شاہدین کے حوالے سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ حریف ملیشیا گروپوں کے جنگجو گرینیڈ لانچر بھی استعمال کر رہے ہیں اور وہ اینٹی ایئر کرافٹ گنوں تک سے حملے کر رہے ہیں۔ لڑائی کے دوران طرابلس کے ہوائی اڈے کو جانے والی مرکزی شاہراہ پر اور شہر کے دیگر حصوں سے مسلسل فائرنگ اور کئی دھماکوں کی آوازیں تو سنی گئیں تاہم دوپہر تک یہ واضح نہیں تھا کہ اس لڑائی میں کون سا مسلح گروپ کس ملیشیا کے خلاف لڑ رہا ہے۔
لیبیا میں مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس کے مطابق طرابلس کا ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا ہے۔ روئٹرز کے ایک نامہ نگار نے بھی تصدیق کر دی کہ طرابلس کے ہوائی اڈے پر مسافر پروازوں کی آمد و رفت روک دی گئی ہے۔ برطانوی اور ترک فضائی کمپنیوں نے طرابلس جانے والی اپنی تمام مسافر پروازیں فوری طور پر منسوخ کر دی ہیں۔ مقامی باشندوں کے بقول شہر کے ہوائی اڈے کے قریب فضا میں گہرے دھوئیں کے بادل دیکھے جا رہے ہیں۔
طرابلس ایئر پورٹ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ہوائی اڈے کے نواح میں شدید لڑائی اور مسافر پروازوں کی معطلی کے بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے مطابق لڑائی کے دوران فائر کیے گئے کئی راکٹ ہوائی اڈے کی بیرونی حدود کے قریب گرے۔ شہر کے متعدد باسیوں نے فیس بک پر ایسی تصاویر بھی شائع کی ہیں، جن میں مبینہ طور پر ایئر پورٹ کے مرکزی ٹرمینل کے سامنے کار پارکنگ سے گہرا دھواں اٹھتا دیکھا جا سکتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق طرابلس ایئر پورٹ اس شہر سے قریب 30 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع ہے اور اس علاقے پر کافی عرصے سے زنتان سے تعلق رکھنے والے ملیشیا کارکنوں کا قبضہ ہے۔ علاقے پر ان جنگجوؤں کے قبضے کو ماضی میں دیگر ملیشیا گروپوں کی طرف سے چیلنج کیا جاتا رہا ہے لیکن شمال مغربی لیبیا میں زنتان کے ملیشیا فائٹرز 2011ء میں معمر قذافی کی اقتدار سے بےدخلی کے بعد سے اب تک اس علاقے پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
لیبیا کے ٹیلی وژن چینل النباء نے بغیر کوئی تفصیلات بتائے اپنی نشریات میں کہا ہے کہ ’فورس برائے استحکام اور سلامتی‘ نامی ملیشیا کے ارکان ہوائی اڈے کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔
لیبیا کو 2011ء میں قذافی دور کے خاتمے کے بعد سے مسلسل بدامنی اور داخلی انتشار کا سامنا ہے۔ وہاں جن ملیشیا گروپوں نے معمر قذافی کو اقتدار سے نکالنے میں مدد دی تھی، وہی مسلح گروپ اب ریاستی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتے اور ملکی حکومت اور پارلیمان انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ان ملیشیا گروپوں کو قذافی حکومت کے خلاف آٹھ ماہ تک جاری رہنے والی مسلح بغاوت کی وجہ سے عسکری کارروائیوں کا کافی تجربہ ہے اور لیبیا کی نو تشکیل شدہ فوج یا پولیس کا ان ملیشیا گروپوں کے ساتھ کوئی موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔