1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ستائیس برس سے بیوی کو طلاق دینے کی کوشش لیکن عدالت نہ مانی

13 اکتوبر 2023

بھارت کی سپریم کورٹ نے نواسی سالہ نرمل سنگھ کو اپنی بیاسی سالہ بیوی پرماجیت کو طلاق دینے کے قانونی حق سے محروم کر دیا ہے۔ پرماجیت کا کہنا ہے کہ وہ اس عمر میں بھی اپنی ازدواجی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہیں۔

Symbolbild Trennung
تصویر: Thiago Santos/Zoonar/picture alliance

بھارت کی سپریم کورٹ نے نواسی سالہ نرمل سنگھ کو اپنی بیاسی سالہ بیوی پرماجیت کو طلاق دینے کے قانونی حق سے محروم کر دیا ہے۔ پرماجیت کا کہنا ہے کہ وہ اس عمر میں بھی اپنی ازدواجی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں شادی کا بندھن پاک اور معتبر ہے، اس لیے صرف ایک فریق کے مطالبے پر شادی ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

نرمل سنگھ نے سن 1963 میں شادی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 1984 میں ان کی شادی ناکام ہو گئی تھی۔ تب سے ہی وہ اپنی اہلیہ کو طلاق دینے کی کوشش میں تھے۔ ان کی اہلیہ پرماجیت کور کی عمر اس وقت بیاسی برس ہے۔ ناچاقی اور لڑائی جھگڑوں کے باوجود وہ طلاق نہیں چاہتی ہیں۔

ازدواجی زندگی سے ناخوش کئی مسیحی خواتین مذہب کی تبدیلی پر مجبور

طلاق پرسپریم کورٹ کا فیصلہ: حقوق نسواں کی کارکنان کی طرف سے خیرمقدم

بھارتی شہری نرمل سنگھ پینیسار نے پہلی مرتبہ ستائیس سال قبل کوشش کی تھی کہ وہ اپنی اہلیہ سے قانونی طور پر علیحدگی اختیار کر لیں۔ تاہم متعدد کوششوں کے باوجود اب ان پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ کم ازکم اس جنم میں تو وہ اپنی بیوی کو قانونی طور پر طلاق نہیں دے سکتے ہیں۔

پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟

03:47

This browser does not support the video element.

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی طلاق کو ایک اخلاقی برائی قرار دیا جاتا ہے۔ نہ صرف گھروالوں کی کوشش ہوتی ہے کہ میاں بیوی ناچاقی کے باوجود بھی الگ نہ ہوں بلکہ ساتھ ہی قانونی نظام میں بھی ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ طلاق دینے کا عمل کافی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق شاید اسی لیے بھارت میں سو میں سے صرف ایک جوڑے کے مابین ہی قانونی طور پر علیحدگی ہوتی ہے۔

نرمل سنگھ نے سن 1986 میں پہلی مرتبہ طلاق کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا۔ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ نے ان کی طلاق کی منظوری دے دی تھی لیکن ان کی اہلیہ پرماجیت کی درخواست پر اسی سال اس عدالتی فیصلے کو واپس لے لیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ شادی اب درست سمت نہیں جا سکتی لیکن قانونی پیچدگیاں ایسی ہیں کہ نرمل سنگھ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے ہیں۔

عدالت نے اپنے تازہ فیصلے میں کہا کہ طلاق دراصل پرماجیت کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اس خاتون نے عدالت سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی ایک طلاق شدہ عورت کا طعنہ سن کر نہیں گزار سکتی ہیں، اس لیے عدالت اس مقدمے کو خارج کر دے۔

بھارت: تین طلاق کے بعد اب 'طلاق حسن' کا تنازعہ

طلاق کے لیے عدالت سے استدعا، 'میری بیوی عورت نہیں ہے'

پرماجیت نے عدالت کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اس بڑھاپے میں بھی وہ اپنی تمام تر ازدواجی ذمہ دارایاں نبھانے کے لیے تیار ہیں اور اپنے بزرگ شوہر کا خیال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔ نرمل سنگھ اور پرماجیت کے تین بچے بھی ہیں۔

یہ مقدمہ بھارتی عدالتی نظام کی سست روی کی ایک مثال بھی ہے۔ صرف اس سول مقدمے کے فیصلے تک پہنچنے میں عدالت نے ستائیس برس کا وقت لیا۔ بھارتی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 43.2 ملین کیسز التوا کا شکار ہیں۔

ع ب/ ع آ (خبر رساں ادارے)

پاکستانی معاشرہ اور عورت کے لیے طلاق

03:57

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں