طلب کم، رسد زیادہ: فرنچ وائن سے صنعتی الکوحل بنائی جائے گی
12 فروری 2023
یورپی ملک فرانس اپنے ہاں بہت بڑی بڑی ذخیرہ گاہوں میں محفوظ وائن کی بے تحاشا اضافی پیداوار کو اب صنعتی الکوحل کی تیاری کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس منصوبے پر ایک سو ساٹھ ملین یورو خرچ کیے جائیں گے۔
تصویر: picture alliance / Zoonar
اشتہار
فرانسیسی وزارت زراعت کے مطابق ملک میں طویل عرصے بڑھتی ہوئی وائن کی غیر استعمال شدہ پیداوار اب اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ حکومت نے اسے دوا سازی اور کاسمیٹکس کی صنعتی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی انڈسٹریل الکوحل میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
فرانس اٹلی کے بعد وائن کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور فرانسیسی قوم کو شرابءٹنوشی کے حوالے سے روایتی طور پر وائن کی شوقین قوم سمجھا جاتا ہے۔
فرانسیسی وائن کی قسمیں
فرانس کا شمار یورپ کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں بہت بڑے بڑے رقبوں پر پھیلے ہوئے انگور کے ان گنت باغات موجود ہیں۔ جنوب مغربی فرانسیسی علاقے بوردو میں تیار کردہ وائن کی مختلف قسمیں خاص طور پر مشہور ہیں اور اس خطے میں وائن کی پیدوار ہوتی بھی بہت ہے۔
بوردو میں انگور اگانے والے کسانوں اور وائن تیار کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ان کی مجموعی پیداوار بھی بہت زیادہ رہتی ہے اور عام فرانسیسی صارفین میں گزشتہ کافی عرصے سے اپنے استعمال کے لیے مقابلتاﹰ کم قیمت وائن خریدنے کا جو رویہ اپنا رکھا ہے، اس کے نتیجے میں ان کی زیر زمین ذخیرہ گاہیں یا wine cellars اتنے بھر چکے ہیں کہ اب وہاں مزید وائن ذخیرہ نہیں کی جا سکتی۔
فرانس میں وائن کے ایسے غیر فروخت شدہ ذخائر اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ ان کی وجہ سے وائن سیلرز میں آئندہ سیزن میں فصل کے حصول کے بعد تیار کی جانے والی وائن رکھنے کی بھی کوئی جگہ نہیں بچی۔
فرنچ وائن انڈسٹری میں تقریباﹰ پانچ لاکھ کارکن کام کرتے ہیںتصویر: Christophe Ena/ASSOCIATED PRESS/picture alliance
فرانس میں وائن کے ایسے ذخائر کا حجم اور مالیت دونوں اتنے زیادہ ہیں کہ پیرس میں ملکی وزارت زراعت کے مطابق وہ اس وائن کو دوبارہ کیمیائی عمل سے گزار کر اس سے انڈسٹریل الکوحل کی تیاری پر ہی 160 ملین یورو یا تقریباﹰ 1470 ملین ڈالر خرچ کرے گی۔
اس منصوبے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے بھی فرنچ وائن کی غیر استعمال شدہ پیداوار ساری تو نہیں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہی استعمال میں لایا جا سکے گا۔پھر بھی اتنا تو ہو جائے گا کہ ملکی وائن پروڈیوسر اپنی آئندہ پیداوار کو کسی نہ کسی طور ٹھکانے لگانے پر مجبور نہیں ہوں گے۔
بوردو کے ایک وائن میکر ڈیڈیئر کُوزینی نے کہا کہ صرف ان کی کمپنی کے سیلرز میں ہی اتنی وائن موجود ہے، جو دو سال کی مجموعی پیداوار کے برابر بنتی ہے۔
حکومت کا انگور کی فصلیں تلف کر دینے کا مشورہ
فرانسیسی حکومت نے قبل ازیں کسانوں کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ انگور کی اہنی فصکیں تلف کرنا شروع کر دیں۔ اس پر ملک کے دیگر خطوں کی طرح بوردو کے علاقے کی زرعی یونینوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی شروع کر دیے تھے۔
فرانس کا علاقہ بوردو انگور کی فصلوں اور شراب کشبدی کے لیے مشہور ہےتصویر: Guillaume Bonnaud/dpa/picture alliance
ان کسانوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فصلیں تلف تو کر دیں مگر اس کی تلافی کے طور پر حکومت کی طرف سے مالی ازالے کے خواہش مند بھی ہیں۔ حکومت کا مشورہ یہ تھا کہ انگور کی پیداوار بھی کم کر دی جائے اور متاثرہ کسان اپنی زمینوں کو دیگر فصلوں کی کاشت کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیں۔
اس عمل کے لیے کم از کم 15 ہزار ہیکٹر رقبے پر انگور کی فصلوں کو تلف کرنا ہو گا۔ یہ رقبہ فٹ بال کے 21 ہزار میدانوں کے مجموعی رقبے کے برابر بنتا ہے۔ لیکن اس عمل کے لیے کاشت کاروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت انہیں فی ہیکٹر 10 ہزار یورو زر تلافی ادا کرے۔
فرنچ وائن انڈسٹری نقصان میں کیوں؟
فرانسیسی حکومت نے ملکی وائن کی غیر فروخت شدہ پیداوار کو صنعتی الکوحل میں بدلنے کے کاروباری عمل کی مالی سرپرستی آخری مرتبہ 2020ء میں کی تھی۔ تب اس شعبے کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بے تحاشا نقصان ہوا تھا کیونکہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہوٹل، ریستوراں اور شراب خانے بند رہے تھے اور وائن کی برآمد بھی کم ہو گئی تھی۔
فرانس کی سفید، گلابی اور سُرخ وائن سب سے زیادہ مقبول ہےتصویر: DW/J. Tompkin
موجودہ حالات میں فرانس کے نیشنل انٹر پروفیشنل وائن کمیشن نے کہا ہے کہ فرنچ وائن انڈسٹری میں تقریباﹰ پانچ لاکھ کارکن کام کرتے ہیں اور اگر حکومت نے صورت حال میں بہتری کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو اگلی ایک دہائی میں ایک لاکھ سے لے کر ڈیڑھ لاکھ تک کارکنوں کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔
فرنچ وائن پروڈکشن ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ سال ملکی سپر مارکیٹوں میں صرف ریڈ وائن کی فروخت میں ہی 15 فیصد کی کمی ہوئی۔ اس کے علاوہ وائٹ وائن اور روز وائن کی فروخت میں بھی مسلسل کمی کا واضح رجحان دیکھا گیا۔
ماہر تجزیہ کاروں کے مطابق آج سے 70 برس قبل فرانس میں ایک عام شہری سال بھر میں اوسطاﹰ 130 لٹر وائن پیتا تھا۔ آج لیکن وائن پینے کا یہی رجحان بہت کم ہو کر اوسطاﹰ 40 لٹر فی کس سالانہ ہو چکا ہے۔
جرمن شراب اور انگور بیلوں کی بھول بھلیاں
جرمنی میں سال کے کسی بھی موسم اور مہینے میں وائن یا شراب کی پیداوار کے تاریخی مقامات کی سیاحت کی جا سکتی ہے۔ قدیم ترین سیاحتی راستہ پلاٹینیٹ میں ہے۔ پچاسی کلومیٹررُوٹ کا آغاز شوائگن ریشٹنباخ سے اور اختتام بوکن ہائیم پر۔
تصویر: Herbert Kehrer/imagebroker/picture alliance
دم بخود کر دینے والے مناظر
پلاٹینیٹ کا علاقہ مقامی طور پر فالز کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تیئیس ہزار ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ جرمنی میں یہ شراب کشید کرنے کا دوسرا بڑا مرکز ہے۔ اس میں قریب چار ہزار افراد شراب کی تیاری کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ زیادہ تر کا یہ آبائی کاروبار ہے اور اس باعث یہ لوگ خاص شہرت رکھتے ہیں۔ اس علاقے کی شراب نہر سویز کے افتتاح پر بانٹی گئی تھی۔ لگژی کروز شپس پر بھی یہ دستیاب ہوتی ہے۔
تصویر: Wolfgang Cezanne/dpa/picture alliance
ریزلنگ کے اُصول
جرمن شرابوں کی ملکہ ریزلنگ وائن کو کہا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں سفید انگور سے تیار کردہ سفید شراب کی اتنی اقسام نہیں پائی جاتیں جتنی کہ جرمنی میں۔ اس کا سب سے بڑا پروڈیوسر فالز ہے۔ انگور کی اقسام کا بادشاہ ریزلنگ انگور ہے۔ رائن لینڈ فالز میں اس کی پیداوار سب سے زیادہ ہے۔ ریزلنگ انگور کی تمام اقسام چھ ہزار ہیکٹرز یا قریب چودہ ہزار آٹھ سو ایکڑ میں کاشت کی جاتی ہیں۔
تصویر: Günter Lenz/imagebroker/picture alliance
وِنٹنر کی وائن
وِنٹنر کا علاقہ عبوری مدت کے لیے کھولے جانے والے شراب خانوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کو جرمن زبان میں ’شٹراؤس وِرٹ شافٹ‘ کہتے ہیں۔ سال کے مخصوص دنوں میں اپریل سے نومبر تک ریزلنگ انگور کے باغات اور بارز کھولے جاتے ہیں۔ وِنٹنر کے مقامی باشندے اپنے علاقے میں انگوروں کی کاشت کرتے اور اپنی تیار کردہ وائن پیش کرتے ہیں۔ اس وائن کے ساتھ ہلکے اسنیکس بھی بیچے جاتے ہیں۔
تصویر: Jürgen Schulzki/imagebroker/picture alliance
جنگلات اور انگور کے باغات
رائن لینڈ فالز میں وائن شٹائیگ ہائکنگ ٹریک انگوروں کے باغات کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس ٹریک پر چلنے والوں کو اس راستے پر تاریخی محلات، شراب کی پیداوار والے علاقے، قدیمی مقامات اور خوبصورت دیہات جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ وائن شٹائیگ ہائکنگ ٹریک ایک سو بہتر کلومیٹر طویل ہے۔ یہ تمام راستہ پیدل گیارہ دنوں میں طے کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ راستے کی شراب کشید کرنے والے فیکٹریوں میں زیادہ وقت صرف نا کیا جائے۔
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/dpa/picture alliance
جرمن تاریخ سے پیوستہ
وائن شٹائیگ ٹریک پر چلنا حقیقت میں جرمنی کی جمہوری تاریخ سے آگہی کا سفر بھی ہے۔ اس میں ہمباخ کا قلعہ بہت مشہور ہے۔ مقامی ہمباخ میلے کے دوران سن 1862 میں جمہوریت کے حق میں جلوس نکالا گیا تھا۔ اس احتجاجی مارچ کو جرمنی میں جمہوری تحریک کا آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ ہمباخ قلعے پر مظاہرین نے سب سے پہلے سیاہ سرخ اور سنہرا پرچم لہرایا جو بعد میں جرمنی کا جھنڈا بن گیا۔
تصویر: Uwe Anspach/dpa/picture alliance
ایک قلعے سے دوسرے تک
رائن لینڈ فالز کی پہاڑیوں سے مغرب کی سمت میں پہاڑی ڈھلوانوں میں بے شمار قلعوں کے کھنڈرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی تعمیر مقامی حکمران خاندانوں سالیان اور اشٹاؤفرس کے دور میں ہوئی تھی۔ سب سے مشہور ٹریفلز کاسل ہے۔ یہ جرمن بادشاہوں کی رہائش گاہ بھی رہ چکا ہے۔ اسی میں انگریز بادشاہ رچرڈ اول کو قید کیا گیا تھا۔ یہ بادشاہ تاریخ میں رچرڈ شیردل ( Richard the Lionheart) کے نام سے مشہور ہے۔
پلاٹینیٹ سن 1816 سے لے کر سن 1956 تک باویریا کا حصہ رہا۔ اس دور کی ایک بڑی یادگار وِلا لُڈوِگ ہوہے ہے جو بادشاہ لُڈوِگ اول کی گرمائی رہائش گاہ تھی۔ غالباً اُس نے سوچا کہ حسین اطالوی علاقے ٹسُکنی کا سفر کیوں کیا جائے جبکہ خود اپنی دہلیز پر پلاٹینیٹ واقع ہے۔ اُس نے ایسے تعمیراتی شاہکار بنوائے جن سے آج بھی سیاح لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
تصویر: Werner Dieterich/imagebroker/picture alliance
خوش خوراکی کی دنیا
رائن لینڈ پلاٹینیٹ کو انتہائی آسودہ اور زندہ دل افراد کا علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیاحوں کے لیے ذائقے، انگوروں کے باغات کی سیر اور شراب چکھنے کے انوکھے مواقع دستیاب ہیں۔ جنگلات میں قائم رہائشی کیبنز سیاحوں کے لیے ایک منفرد کشش کے حامل ہیں۔
تصویر: S. Oehlschlaeger/blickwinkel/picture alliance
ساسیج اور وائن
پلاٹینیٹ کا مقام باد ڈؤرخائم کے وائن فیسٹ کو ساری دنیا میں سب سے بڑا شراب کا فیسٹیول قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بارہویں صدی سے جاری ہے۔ اس فیسٹیول کو متعارف کرا کے مقامی لوگوں نے اپنے علاقے کی خوراک اور شراب کو قرب و جوار میں مقبول کیا۔ اس فیسٹیول کا نام شائقین کی ایک اور پسندیدہ خوراک یعنی ساسیج کے نام پر رکھا گیا جو شراب کے بعد دوسرا مقبول ذائقہ ہے۔
تصویر: Ronald Wittek/dpa/picture alliance
جرمن وائن گیٹ
وائن گیٹ پلاٹینیٹ کا علاقہ جرمن ’وائن روٹ‘ کی ابتدا اور انتہا دونوں ہے۔ یہ شوائیگن ریشٹن باخ میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر نیشنل سوشلسٹ حکمران ہٹلر نے سن 1935 میں کروائی تھی۔ جرمن وائن گیٹ کو سیاحوں کے لیے ایک بڑی کشش بنانا اصل مقصد تھا۔