’طلسمی حقیقت نگار‘ مارکیز انتقال کر گئے
18 اپریل 2014امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے مقامی نیوز میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہسپانوی زبان کے اس مقبول ادیب کا انتقال میکسیکو سٹی میں واقع ان کے گھر پر ہوا۔ انہوں نے سوگواران میں اپنی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ فوری طور پر ان کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے تاہم وہ رواں ماہ کے اوائل میں نمونیا کی شکایت پر ایک ہفتہ ہسپتال میں داخل رہے تھے۔ وہ گزشتہ تیس برس سے میکسیکو میں ہی سکونت پذیر تھے۔
ادب میں ’طلسمی حقیقت نگاری‘ (میجک رئیلزم) کے بانی مارکیز کو شہرت ان کے ناول One Hundred Years of Solitude (تنہائی کے سو سال) سے ملی۔ سن 1967ء پر شائع ہونے والے اس ناول کے بعد لاطینی امریکا ادبی منظر نامے پر نمایاں ہو گیا تھا۔ اس ناول کی تیس ملین جلدیں فروخت ہو چکی ہیں جبکہ تیس سے زائد زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے۔
مارکیز کو 1982ء میں اسی ناول کی بنیاد پر ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ اس ناول میں طلسمی حقیقت نگاری کی تکینیک انتہائی اعلیٰ طریقے سے استعمال کی گئی ہے۔ ناقدین کے بقول یہ ناول ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔
کولمبیا کے صدر خوان مانوئل سانتوس نے مارکیز کے انتقال پر اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپانوی زبان ایک بڑے ادیب سے محروم ہو گئی ہے جبکہ کولمیبا کے عوام اپنے ایک ہیرو سے۔ مارکیز کا ایک اور ناول Love in the Time of Cholera (وبا کے دنوں میں محبت) بھی عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
گبرئیل گارسیا مارکیز چھ مارچ سن 1927 کو کولمیبیا کے کریبین ریجن اراکاتاکا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور صحافی کیا۔ انہوں نے ادب کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے پہلے پہل مضامین، افسانے اور مختصر ناول لکھے۔ پچاس کے دہائی کے دوران ان کے اہم ادب پاروں میں Leaf Strom اور No one writes to Colonel نامی ناول بھی شامل ہیں۔ ان کتابوں میں مارکیز نے طلسمی حقیقت نگاری کے استعمال سے جہاں جدید ادب کو ایک نئی فلسفیانہ اقدار سے روشناس کرایا وہیں ’زبان کی شکست و ریخت کی حدود‘ جیسے مسائل کو بھی اجاگر کیا۔
مارکیز کی موت پر عالمی حلقوں اور متعدد ادیبوں کی طرف سے بھی اظہار تعزیت کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ مارکیز نے علالت کے باعث گزشتہ چند سالوں سے کچھ نہیں لکھا تھا اور وہ عوامی تقریبات میں بھی شریک نہیں ہوتے تھے تاہم پھر بھی ان کی موت کو ہسپانوی زبان کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔