طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا، عمران خان نے افتتاح کر دیا
فریداللہ خان، پشاور
18 ستمبر 2019
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے ساتھ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کے توسیعی منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کردیا ہے۔ طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے پر تقریباﹰ سولہ ارب روپے کی لاگت آئی۔
اشتہار
پاکستان اور افغانستان کے مابین آمد و رفت کے لیے سب سے زیادہ طورخم کا راستہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ سال 2012ء تک طورخم کے راستے پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈھائی ارب ڈالر مالیت کی سالانہ تجارت ہوتی تھی تاہم 2015ء کے بعد سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی تھی اور اس تجارت کا سالانہ حجم محض صفر اعشاریہ چار ارب ڈالر رہ گیا تھا۔
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Amara
13 تصاویر1 | 13
سال رواں کے وسط میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین ہونے والی ایک ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اسی کمیٹی کی سفارشات پر مختلف اقدامات کیے گئے۔ پاکستان نے طورخم بارڈر پر مزید سہولیات فراہم کیں اور آج بدھ 18 ستمبر کو اس توسیعی منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر کے اس سرحدی گزرگاہ کو دن رات کھلا رکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اور صوبائی گورنر شاہ فرمان سمیت سرکردہ پاکستانی اہلکاروں کے علاوہ افغان حکومت کے اعلیٰ نمائندے اور سرکاری عہدیدار بھی موجود تھے۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا، ''ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغانستان میں بدامنی کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہندوکش کی اس ریاست میں امن وسطی ایشیائی ممالک سمیت پورے خطے کے لیے اہم ہے۔ ہم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے بھر پور کوششیں کی ہیں، یہاں تک کہ افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ قطر میں مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ اس کے علاوہ یہ بات امریکی حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘
طورخم کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ کی بندش
پاکستان اور افغانستان کے مابین طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر پاکستانی حکام کی طرف سے خار دار باڑ لگانے کے تنازعے کے باعث یہ بارڈر کراسنگ گزشتہ کئی دنوں سے بند ہے، جس کی وجہ سے سرحد پار آمد و رفت اور مال برداری بھی معطل ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
سرحد کی طرف رواں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی مال برداری کا ایک بہت بڑا حصہ طورخم کی سرحد کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے۔ اس تصویر میں بہت سے ٹرک اور ٹرالر طورخم کی طرف جاتے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایسی ہزاروں مال بردار گاڑیاں پہلے ہی کئی دنوں سے اس شاہراہ پر بارڈر دوبارہ کھلنے کے انتظار میں ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
باب خیبر
طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کی طرف سے سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں خار دار باڑ لگانے کے منصوبے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے کے حل کے لیے اسی ہفتے خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ اور خیبر رائفلز کے کمانڈنٹ کی افغان پولیس کے کمانڈر سے بات چیت بھی ہوئی لیکن اطرف کے مابین کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
تصویر: DW/D.Baber
بندش کا مطلب تجارتی جمود
پاکستان افغان سرحد کی بندش سے متعلق تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی پہنچ رہا ہے اور ان ڈارئیوروں کو بھی جو پچھلے کئی دنوں سے انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
تصویر: DW/D.Baber
بارڈر کھلنے کا انتظار
طورخم بارڈر کی بندش کے باعث اس سرحدی گزر گاہ کو جانے والی شاہراہ پر دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں کئی طرح کے تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے ڈرائیور اس انتظار میں ہیں کہ بارڈر کھلے تو وہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
تصویر: DW/D.Baber
کراچی سے کابل تک پریشانی
بارڈر کی بندش کے نتیجے میں ایک طرف اگر شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی کئی کئی کلومیٹر طویل قطاریں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں کراچی سے لے کر افغانستان میں کابل تک ہزاروں تاجر بھی اس لیے پریشان ہیں کہ یہ صورت حال اب تک ان کے لیے کروڑوں کے نقصان کا سبب بن چکی ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
کئی دنوں سے بھوکے ڈرائیور
سرحد کی بندش کے باعث مال بردار گاڑیوں کے ہزاروں ڈرائیوروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی گاڑیوں کو چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے اور جہاں وہ ہیں، وہاں انہیں معمول کی خوراک دستیاب نہیں۔ ایسے میں انہیں سڑک کنارے بیچی جانے والی اشیاء اور کچھ پھل وغیرہ خرید کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں پیاس
مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس ان کی گاڑیوں میں عام طور پر اشیائے خوراک یا مشروبات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں شدید گرمی میں اگر ممکن ہو سکے تو وہ اپنی پیاس چائے پی کر بجھا لیتے ہیں۔ اس تصویر میں اپنے ٹرک کے نیچے بیٹھے دو افراد اپنے لیے چائے بنا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
گرمی میں ٹرک کا سایہ بھی غنیمت
پاکستان سے روزانہ بے شمار ٹرک اور ٹرالر تجارتی اور تعمیراتی سامان کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں لے کر افغانستان جاتے ہیں۔ کئی ڈرائیوروں کو خدشہ ہے کہ طورخم کی سرحد کی بندش اب دنوں سے نکل کر ہفتوں کی بات بن سکتی ہے۔ اس تصویر میں محض انتظار کرنے پر مجبور ایک ٹرک ڈرائیور اور اس کا ساتھی دوپہر کی گرمی میں سستانے کے لیے اپنے ٹرک کے نیچے زمین پر سو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D.Baber
8 تصاویر1 | 8
وزیر اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے غیر مشروط طور پر افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کی ہیں اور طالبان اور امریکا کو ون ٹو ون ساتھ بٹھانے کا موقف اختیار کیا، ''اسی لیے تو ہمیں بات چیت میں ڈیڈ لاک کا پتہ نہیں چلا۔‘‘ عمران خان نے کہا کہ ان کی آئندہ پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک ملاقات طے ہے، جس میں وہ یہی کہیں گے، ''چار دہائیوں سے حالت جنگ میں رہنے والے افغانوں کا حق بنتا ہے کہ ان کے ملک میں بھی امن قائم ہو۔‘‘
پاکستانی سربراہ حکومت کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین بھی مذاکرات شروع کروانے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ان کے خیال میں اگر افغان طالبان آئندہ قومی الیکشن میں شامل نہ ہوئے، تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ''پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت بڑھے گی، تو دونوں ممالک کے عوام کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور بالخصوص دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی مشکلات کسی حد تک کم ہو سکیں گی۔‘‘
ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے متصل طورخم کی پاک افغان سرحد کو روزانہ آمد و رفت اور تجارت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں چودہ لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور تقریباﹰ اتنی ہی تعداد میں غیر رجسٹرڈ افغان شہری بھی رہائش پذیر ہیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
افغانستان میں بدامنی کی حالیہ لہر کی وجہ سے ایک بار پھر افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کا پروگرام سست روی کا شکار ہو چکا ہے۔
طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا تھا کہ طورخم بارڈر کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں پاکستانی مصنوعات کی برآمد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ افغان باشندوں کو علاج معالجے کے لیے پشاور اور اسلام آباد جانے میں بھی آسانی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن سے قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘
قبل ازیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر اعلیٰ حکام نے طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب کے لیے کئے گئے انتظامات اور سکیورٹی صورت حال کا بھی جائزہ لیا تھا۔ اس دوران صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے طورخم کے آج کے دورے کے لیے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔