طوفان اور سخت سردی کی لپيٹ ميں آ کر چودہ شامی پناہ گزين ہلاک
عاصم سلیم
21 جنوری 2018
پناہ کے ليے لبنان پہنچنے کی کوششوں کے دوران کئی شامی مہاجرين ايک طاقتور طوفان کی زد ميں آ کر سخت سردی کے سبب ہلاک ہو گئے۔ يہ ہلاکتيں شام اور لبنان کے درميان 330 کلوميٹر طويل سرحد کے قریب ايک پہاڑی علاقے ميں ہوئيں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ شام سے لبنان فرار ہونے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہونے والے شامی پناہ گزينوں کی تعداد تيرہ ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی مقامی ترجمان ليزا ابو خالد نے ہفتہ بيس جنوری کو بتايا کہ شامی مہاجرين کا يہ گروپ انتہائی سخت سردی اور منفی درجہ حرارت ميں پہاڑی علاقے کے ايک دشوار گزار حصے سے گزرنے کی کوشش ميں تھا۔ يہ سانحہ جمعرات اور جمعے کی درميانی شب پيش آيا، جب ايک طاقت ور طوفان اور شدید سردی کے باعث اس گروپ کے کم از کم تيرہ ارکان ہلاک ہو گئے، جن میں عورتيں اور بچے بھی شامل تھے۔
لبنانی فوج کے مطابق جمعے کے روز دس افراد کی لاشيں نکال لی گئی تھيں، جن ميں دو بچے اور چھ عورتيں شامل تھيں۔ تاہم اتوار تک مزيد اموات سامنے آئيں اور اب ہلاک شدگان کی تعداد چودہ بتائی جا رہی ہے۔ لبنانی حکام کے مطابق فوجی اہلکاروں اور مقامی افراد نے شامی پناہ گزينوں کے اس گروپ ميں شامل چند ديگر افراد کو ريسکيو بھی کيا، جن ميں ايک حاملہ عورت بھی شامل ہے۔
سربیا کی شدید سردی میں پھنسے بے گھر تارکین وطن
01:35
لبنان کی مجموعی آبادی لگ بھگ چار ملين افراد پر مشتمل ہے۔ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک پناہ گزين لبنان جاتے رہے ہيں۔ اس وقت لبنان ميں تقريباً ايک ملين شامی تارکين وطن آباد ہيں۔ ان کی اکثريت ملک کے مشرقی حصے ميں غير سرکاری بستيوں اور خيموں ميں مقيم ہے۔ انتہائی سرد موسم ميں ان پناہ گزينوں کی گزر بسر بہت ہی مشکل عمل بن جاتی ہے۔
سردی کے سبب مہاجرين کے ايک گروپ کی ہلاکت کی اطلاعات ملنے کے بعد اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے يونيسیف کی جانب سے اعلان کيا گيا کہ مہاجرین کی بستيوں ميں مقیم تارکین وطن ميں کمبل، گرم کپڑے اور ديگر اشياء تقسيم کی جا رہی ہيں۔ يونيسیف نے اپنے ایک بيان میں کہا ہے، ’’لبنانی حکام اور مقامی باشندے تلاش جاری رکھے ہوئے ہيں اور يہ امکان موجود ہے کہ پہاڑی علاقے ميں سخت سردی میں وہاں مزيد افراد اور بچے يا تو پھنسے ہوئے ہوں يا ان کی موت واقع ہو چکی ہو۔‘‘ اس بيان ميں مزيد کہا گیا ہے کہ ’ظالمانہ جنگوں کا خاتمہ‘ ہونا چاہيے اور ’بچوں کو مسلسل مايوس نہيں کيا جا سکتا‘۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔