وہ طوفانی ہواؤں کی سائیں سائیں کو نسیم سحر کے ٹھنڈے جھونکے قرار دے رہے ہیں۔ جب کسی کو طوفان دکھائی دے، نہ طوفانی ہواؤں کی سائیں سائیں سنائی دے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ یا تو وہ دیکھ اور سن نہیں سکتا یا پھر اس کے ہوش و حواس گم ہو چکے ہیں؟
پاکستان کے بائیس کروڑ سے زیادہ لوگ مہنگائی کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کی چیخ و پکار پر عمران خان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بہت جلد کم آمدنی والے لوگوں کو یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے خورد و نوش رعایتی نرخوں پر فراہم کی جائیں گی۔
کم از کم عمران خان کو یہ تو احساس ہے کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان کے لائے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کو یہ طوفان نظر نہیں آ رہا۔ موصوف نے حال ہی میں برطانیہ میں بیٹھ کر فرمایا ہے کہ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی ہے تو پاکستان سے باہر رہنے والے نوے لاکھ تارکین وطن کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
جب میں نے رضا باقر کی یہ گفتگو سنی تو طبیعت بے چین ہو گئی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے وطن سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں، جتنی ہم پاکستان میں رہنے والے کرتے ہیں۔ لیکن رضا باقر نے بیرون ملک پاکستانیوں کے نام پر ان پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا، جو پاکستان کے اندر مہنگائی کے طوفان سے شدید پریشان ہیں۔ ان پاکستانیوں کی تعداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد کا موازنہ کریں تو آپ کو رضا باقر کی ترجیحات کا اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا۔
رضا باقر بیرون ملک سے آئے اور راتوں رات گورنر اسٹیٹ بینک بن گئے۔ ذہنی طور پر وہ بدستور بیرون ملک مقیم ہیں اور اسٹیٹ بینک کی گورنری ختم ہونے پر وہ بیرون ملک واپس چلے جائیں گے۔ رضا باقر نے جو کہا ہے وہ کم عقلی نہیں بلکہ سنگ دلی ہے۔ وہ پاکستان کے اندر رہنے والوں کا نہیں بلکہ پاکستان سے باہر رہنے والوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ رضا باقر کے اس بیان پر بیرون ملک رہنے والے بہت سے پاکستانی بھی ناخوش ہیں۔ حکومت کے کچھ وزراء نے بھی اس بیان پر نجی محفلوں میں تنقید کی۔ حکومت کے وزراء کی ایک بڑی تعداد آج کل یا تو حیران ہے یا پریشان ہے۔
پچھلے دنوں عمران خان کے ایک بہت قریبی ساتھی نے مجھے کہا کہ وزیراعظم نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے نوٹیفیکشن کو لٹکا کر اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ کئی ہفتے تک یہ معاملہ زبان زد عام رہا۔ یہ معاملہ پس منظر میں گیا تو نئے نئے معاملات اور مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔
بلوچستان میں جام کمال کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سامنے آ چکی ہے۔ 65 کے ایوان میں 33 ارکان نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ اس تحریک پر ووٹنگ 25 اکتوبر کو ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے ارکان وزیراعلیٰ جام کمال کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں جبکہ جام کمال تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ناراض ارکان کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہیں۔ کسی کو پیار سے پچکار رہے ہیں اور دورِ جدید کے ''لولی پاپ‘‘ دے رہے ہیں اور کسی کو ڈرایا یا دھمکایا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں جام کمال نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت کئی دیگر اتحادی جماعتوں کے ارکان جام کمال کے خلاف سرگرم ہیں۔
ایک اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے چار ارکان بہت اہم ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی مرکز میں عمران خان کی مخالف ہے اور بلوچستان میں ان کی اتحادی ہے۔ اے این پی کے یہ چار ووٹ ٹوٹ گئے تو جام کمال کی پوزیشن پہلے سے زیادہ کمزور ہو جائے گی۔ اگر اے این پی نے جام صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو صرف بلوچستان نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی اے این پی کی ساکھ متاثر ہو گی۔
بلوچستان میں جام کمال کی جگہ بلوچستان عوامی پارٹی کے باغی ارکان میں سے کوئی نیا وزیر اعلیٰ بنے گا لیکن یہ نیا وزیر اعلیٰ جے یو آئی، بی این پی مینگل، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر عمران خان مخالف جماعتوں کے ووٹوں کا محتاج ہو گا۔ لہذا جام کمال کی حکومت کا خاتمہ دراصل عمران خان کے لیے ایک سیاسی دھچکا ثابت ہو گا، جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششیں تیز ہو جائیں گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی کوششوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے فاصلے کم ہو سکتے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف علیحدہ علیحدہ مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اگلے تین ماہ کے عرصے میں پارلیمینٹ کے اندر بھی مشترکہ حکمت عملی اختیار کر سکتی ہیں اور عمران خان کو بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوشش پر متفق ہو سکتی ہیں۔
آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کچھ فیصلے عمران خان کی حکومت کے لیے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے کچھ وزراء الیکشن کمیشن کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔
پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کرائے گئے، جن کی وجہ سے عوامی مسائل میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہتی ہے اور انہیں دو اہم صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے پڑ گئے تو ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھ جائیں گی۔
یہی وہ صورتحال ہے، جس کے باعث مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ عمران خان ملک میں مارشل لا لگوانے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبیں۔ احسن اقبال کا خدشہ اپنی جگہ لیکن پاکستان کو، جس پیچیدہ داخلی اور خارجی صورتحال کا سامنا ہے، اس میں مارشل لا سے پاکستان کے مسائل کم نہیں زیادہ ہو جائیں گے۔
مارشل لا کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو ہو گا لہذا اپوزیشن اس زہریلے آپشن کا ذکر نہ ہی کیا کرے تو بہتر ہے۔ پاکستان ایک سیاسی اور جمہوری عمل کی پیداوار ہے۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل آئین اور قانون کی بالادستی میں ہے۔
اپوزیشن عمران خان کو ہٹانا چاہتی ہے تو آئین و قانون میں راستے موجود ہیں۔ عمران خان بھی یہ مت سوچیں کہ سیاسی شہید بن کر وہ کوئی فائدہ اٹھا لیں گے۔ اگر پاکستان میں جمہوری و سیاسی عمل کو مزید دھچکا پہنچا تو یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت خطرناک ہو گا۔ سیاسی شہید بننے سے بہتر ہے کہ عمران خان آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور عام لوگوں کو جلد از جلد ریلیف دینے کی کوشش کریں۔
مہنگائی کا طوفان ختم ہو گیا تو کوئی سیاسی سازش عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔ مہنگائی کا طوفان اس وقت ختم ہو گا، جب عمران خان بیرون ملک سے امپورٹ کیے گئے رضا باقر جیسے لوگوں سے جان چھڑائیں گے، جنہیں پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی مشکلات اور تکالیف کا کوئی اندازہ نہیں۔
جو لوگ اپنوں کی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سنتے ہیں، جن کا مستقبل پاکستان کے اندر نہیں بلکہ باہر ہے، انہیں طوفانی ہواؤں کی سائیں سائیں بھی نسیم سحر کے جھونکے لگتی ہے۔ عمران خان کو اصل خطرہ انہیں لوگوں سے ہے۔ اصل خطرہ اندر سے ہے، اپوزیشن سے نہیں۔