1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'پاکستانی میزائل امریکہ کو بھی نشانہ بنا سکتے' ہیں، امریکہ

20 دسمبر 2024

ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام 'ابھرتا ہوا خطرہ' ہے اور وہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے بیلسٹک میزائل تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے امریکہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے میزائل
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقدامات امریکہ کے لیے ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور چیز کے طور پر دیکھنا کافی مشکل ہےتصویر: T. Mughal/epa/dpa/picture alliance

وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے جمعرات کے روز کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی صلاحیتوں میں اضافہ اور ترقی کرنے میں لگا ہے، جن کی مدد سے وہ امریکہ سمیت جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے بدھ کے روز ہی پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر پاکستان نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی کارروائی کو بدقسمت اور جانبدارانہ قرار دیا ہے۔

پاکستانی اداروں پر امریکی پابندیاں، اسلام آباد کا ردعمل

امریکی اہلکار کے نئے الزامات کیا ہیں؟

وائٹ ہاؤس میں نائب قومی سلامتی کے مشیر جان فائنر نے ایک وقت میں امریکہ کے قریبی ساتھی کے بارے میں اپنے حیرت انگیز خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے طرز عمل نے اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں "حقیقی سوالات" کو جنم دیا ہے۔

فائنر کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا، "واضح طور پر کہوں، تو ہمارے لیے پاکستان کے اقدامات امریکہ کے لیے ابھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور چیز کے طور پر دیکھنا مشکل ہے۔"

امریکہ تنقید کے بجائے پاکستانی اصلاحات کی حمایت کرے، پاکستان

انہوں نے کہا، "پاکستان نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل سسٹم سے لے کر ایسے آلات تک تیزی سے جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی تیار کی ہے، جو اس لائق ہے کہ اس سے نمایاں طور پر بڑے راکٹ موٹروں کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔"

امریکہ کا یہ بیان واشنگٹن کی ان تازہ پابندیوں کے ایک روز بعد آيا ہے، جس میں پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو نشانہ بنایا گیا تھا تصویر: ISPR HO/epa/dpa/picture-alliance

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ رجحانات جاری رہتے ہیں تو، "پاکستان کے پاس امریکہ سمیت جنوبی ایشیا سے باہر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہو جائے گی۔"

قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر کے یہ حیرت انگیز انکشافات اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ سن 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کس حد تک خراب ہو چکے ہیں۔

امریکہ ایک شخص کے لیے تعلقات خراب نہیں کرے گا، پاکستان

پاکستان پر امریکی پابندیاں اور اسلام آباد کا رد عمل

امریکی اہلکار کا یہ بیان پاکستان کے خلاف واشنگٹن کی ان تازہ پابندیوں کے ایک روز بعد آيا، جس میں پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو نشانہ بنایا گیا ہے اور سرکاری دفاعی ایجنسی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) سمیت تین دیگر نجی کمپنیاں اس کی زد میں آئی ہیں۔

جن تین نجی تجارتی اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز اور روک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔ ان کمپنیوں پر این ڈی سی کے ساتھ ساز و سامان حاصل کرنے میں تعاون کرنے کا الزام ہے۔

درجنوں امریکی قانون سازوں کا عمران خان کی رہائی پر زور

واضح رہے کہ پابندیوں کا ہدف بننے والے اداروں کے امریکہ میں موجود اثاثے منجمد ہو جاتے ہیں اور امریکیوں کو ان کے ساتھ لین دین اور کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی۔

ان پابندیوں کے رد عمل میں پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی کارروائی بدقسمت اور جانبدارانہ ہے اور یہ فوجی عدم توازن میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے علاقائی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔

پاکستان نے امریکہ سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات پر جو خطے کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان پر نظر ثانی کی جائے۔

امریکہ: اسلحہ پروگرام کی مدد کرنے پر درجنوں ادارے بلیک لسٹ

کمرشل اداروں پر پابندی عائد کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جمعرات کے روز پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ ماضی میں کمرشل اداروں کی فہرستیں محض شبہات اور شک کی بنیاد پر بغیر کسی ثبوت کے بنائی گئی تھیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)

جنگ کسی ملک کے لیے سازگار نہیں، حنا ربانی کھر

07:17

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں