ظالم گرمی نے بھارتی شہریوں کا جینا کس طرح مشکل کر رکھا ہے؟
31 مئی 2023بھارت میں حالیہ ہفتوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کے بعد ملک کے بڑے حصوں میں زور دار گرمی کی لہر نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ بھارتی محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی ) نے رواں ماہ اس جنوب ایشیائی ملک کی کچھ ریاستوں میں شدید گرمی کی لہر کا الرٹ جاری کیا۔ ایجنسی نے متنبہ کیا کہ جب تک بارشوں سے کچھ راحت نہیں آتی تب تک گرمی کی شدت برقرار رہے گی۔
بھارت: وزیر داخلہ کی تقریب میں شریک گیارہ افراد گرمی سے ہلاک
آئی ایم ڈی کے مطابق اس سال ملک کے جنوب مغرب میں مون سون بارشوں کے سیزن میں قدرے تاخیر ہوئی، جس کی وجہ سے درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا۔ محکمے کے ماہرین کو توقع ہے کہ مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جون کے پہلے ہفتے میں شروع ہو گا۔
آئی ایم ڈی کے ایک سائنسدان ڈی ایس پائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت حد سے تجاوز کر گیا ہے۔‘‘
جنوبی ایشیا: شدید گرمی کے باعث لاکھوں افراد کے روزگار متاثر
سب سے زیادہ متاثرکون ؟
شدید گرمی نے بہت سے لوگوں کو گھروں کے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے غریب اور یومیہ اجرت والے مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ان کے پاس عام طور پر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ سخت گرمی میں اپنا کام پورا کرنے کے لیے محنت کرتے رہیں اور یہ اکثر پنکھے یا ایئر کنڈیشنر تک کی رسائی سے بھی محروم رہتے ہیں۔
نئی دہلی میں سائنس اور ماحولیات کے مرکز کی ڈائریکٹر سنیتا نارائن نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ''ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کو کم گھریلو سہولیات کے ساتھ ساتھ خواندگی کی کم شرح اور پانی اور صفائی تک عدم رسائی کی وجہ سے گرمی کی لہر کا شکار ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔" شدید موسمی حالات صحت کے مسائل اور یہاں تک کہ موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
اپریل میں ریاستی حکومت کے زیر اہتمام ایک عوامی تقریب میں شرکت کے بعد مغربی ریاست مہاراشٹرا میں ہیٹ اسٹروک یعنی لُو لگنے سے 13 افراد ہلاک اور 12 سے زیادہ دیگر گرمی سے متعلقہ بیماریوں کا شکار ہوئے۔ ملک کے اعلیٰ موسمیاتی ماہرین کے 2021ء میں کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ بھارت میں گزشتہ 50 سالوں میں گرمی کی لہروں نے 17,000 سے زیادہ جانیں لی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی گرمی کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
موسم گرما کے اپریل سے جون تک کے اہم مہینوں میں بھارت کے بیشتر حصے ہمیشہ گرم رہتے ہیں۔ لیکن پچھلی دہائی میں درجہ حرارت زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ جنوبی ایشیاء کو مجموعی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرےکا سامنا کرنے والا خطہ سمجھا جاتا ہے۔
اس ماہ کے شروع میں انتہائی گرمی کے منبع کا جائزہ لینے والے ایک تعلیمی گروپ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی طرف سے شائع کردہ ایک مطالعے میہں پایا گیا کہ اس خطے میں گرمی کی لہریں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم از کم 30 گنا زیادہ پیدا ہوئی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں درجہ حرارت کم از کم دو ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔
موجودہ رجحانات جاری رہنے کے ممکنہ اثرات
نئی دہلی میں قائم انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مرکز برائے ماحولیات کے پروفیسرکرشنا اچوت راؤ جیسے ماہرین کے مطابق اگر گرمی میں اضافے کے موجودہ رجحانات جاری رہے تو درجہ حرارت اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ انسانی جسم کی اندرونی درجہ حرارت کو مستحکم رکھنے اور پسینے کے ذریعے اضافی گرمی نکالنے کی صلاحیت نمایاں طور پر متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورتحال گرمی کے دباؤ، تھکن اور یہاں تک کہ ہیٹ اسٹروک جیسے جان لیوا حالات کا باعث بنے گا۔
اچوت راؤ نے اس بارے میں مزید وجاھت کرتے ہوئے کہا، ''یہ گرمی کی لہر مہلک رہی ہے اور مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے اسے نہ صرف درجہ حرارت کے لحاظ سے بلکہ اس کی حدت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ گرمی کے انڈیکس کے حساب سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے موسم دو ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کو مستقبل میں زیادہ اور بار بار شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے ملازمتوں اور بجلی کی پیداوار سے لے کر پانی اور خوراک کی فراہمی تک ہر چیز متاثر ہوگی۔
ایک بین الاقوامی ترقیاتی تنظیم آئی پی ای گلوبل میں موسمیاتی تبدیلی اور پائیداری کے شعبے کے سربراہ ابیناش موہنتی نے کہا کہ بھارت میں گرمی کی تازہ ترین لہر اس بات کی 'کلاسیکی مثال‘ ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلیاں لوگوں کی زندگیوں اور ان کے معاش پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔
"بھارت صرف گرمی کی لہروں کی وجہ سے 2030 تک 34 ملین ملازمتوں سے محروم ہونے والا ہے۔ زرعی پیداواری صلاحیت کم ہونے والی ہے۔ اس سے خوراک کی حفاظت، سپلائی کولڈ چین اور اقتصادی شعبے کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
بھارت شدید گرمی سے نمٹنے کے لیے کیا کر سکتا ہے؟
دنیا بھر کے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہیں۔ زمین کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج کی بات کی جائے تو بھارت اس فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ لیکن اس کا فی کس کاربن فٹ پرنٹ مغربی صنعتی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق بھارت میں ہر شخص ایک سال میں اوسطاً تقریباً دو ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ یا سی او ٹو خارج کرتا ہے، جب کہ یورپی یونین اور امریکہ میں یہی تناسب بالترتیب تقریباً سات اور پندرہ پندرہ ٹن فی کس ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرولوجی کے موسمیاتی سائنس دان راکسی میتھیو کول نے کہا کہ بھارت کو انتہائی کمزور علاقوں کی نشاندہی کرنے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے کے لیے کافی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، ''بھارت کو ایک طویل مدتی وژن کی ضرورت ہے، جہاں ہمارے پاس ایسی پالیسیاں ہوں، جو ہمارے کام کے اوقات، عوامی بنیادی ڈھانچے، اسکولوں، ہسپتالوں، کام کی جگہوں، مکانات، نقل و حمل اور زراعت کو مستقبل میں گرمی کی لہروں سے نمٹنے میں مدد فراہم کریں۔‘‘
مرلی کرشنن (ش ر⁄ ع ا)