عاجزی بہتر ہے: پوپ کو تحفے میں ملنے والی لامبورگینی نیلام
13 مئی 2018
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس اپنی عاجزی اور غریبوں کے لیے ہمدردی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بطور تحفہ دی گئی بہت مہنگی لامبورگینی گاڑی اپنے پاس رکھنے کے بجائے نیلام کرا دی ہے۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے اتوار تیرہ مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پاپائے روم کو یہ بہت قیمتی تحفہ اٹلی کے بہت مہنگی سپورٹس کاریں تیار کرنے والے ادارے لامبورگینی نے گزشتہ برس نومبر میں دیا تھا۔ اس گاڑی کو پوپ کے حکم کے مطابق نیلام کر دیا گیا اور نیلامی موناکو میں کی گئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پاپائے روم کی ملکیت یہ گاڑی، جس پر خود پوپ نے اپنے دستخط بھی کر دیے تھے، سات لاکھ پندرہ ہزار یورو میں نیلام ہوئی۔ 580 ہارس پاور کے انجن والی یہ سفید رنگ کی سپورٹس کار ’ہوراکان آر ڈبلیو ڈی کُوپے‘ ماڈل کی لامبورگینی ہے، جو ماہرین کے اندازوں کے برعکس اپنی زیادہ سے زیادہ ممکنہ قیمت کے دوگنا سے بھی زیاد رقم کے عوض فروخت ہوئی۔ اسے ایک ایسے شخص نے خریدا، جس کی نیلام گھر کی طرف سے شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
موناکو کے گریمالڈی فورم میں سوتھیبی نامی نیلام گھر کی طرف سے نیلام کردہ پاپائے روم کی اس گاڑی کے لیے بولی ڈیڑھ لاکھ یورو سے شروع ہوئی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ قیمت نصف ملین یورو سے بھی زیادہ ہو گئی اور آخر کار یہ لگژری سپورٹس کار 715.000 یورو کی سب سے زیادہ بولی لگانے والے خریدار کو بیچ دی گئی۔
اس گاڑی کو نیلام کرنے والے ادارے کے مطابق سات لاکھ یورو سے زائد کی اس رقم میں سے 70 فیصد یا پانچ لاکھ یورو سے زائد کی رقم شمالی عراق کے شہر موصل کی تعمیر نو میں مدد کے لیے مہیا کی جائے گی، جسے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے اپنے قبضے کے دوران بری طرح تباہ کر دیا تھا۔
نیلامی کی اس رقم کا باقی ماندہ مختلف حصوں میں ایسے فلاحی امدادی منصوبوں کے لیے عطیہ کر دیا جائے گا، جو وسطی افریقہ میں غریب مریضوں کو ادویات کی فراہمی یا پھر نادار انسانوں کی سماجی مدد کے لیے چلائے جا رہے ہیں۔
پاپائے روم کو تحفے کے طور پر دی گئی جو لامبورگینی آج نیلام کر دی گئی، وہ پوپ نے آج تک چلائی ہی نہیں۔ اس طرح یہ کار بالکل نئی اور غیر استعمال شدہ ہے۔ پوپ فرانسس عام طور پر ایک ایسی فورڈ فوکس نامی گاڑی استعمال کرتے ہیں، جو ویٹیکن سٹی کے سرکاری گاڑیوں کے قافلے کا حصہ ہے۔
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
13 تصاویر1 | 13
پوپ فرانسس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس فرانسیسی ساختہ ایک ایسی رینالٹ ’آر فور‘ طرز کی گاڑی بھی ہے، جس کا رنگ سفید ہے اور جو 1984ء ماڈل کی ایک کار یعنی 34 برس پرانی ہے۔
ماضی میں پوپ فرانسس کو ایک بہت مہنگی ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل بھی تحفے میں پیش کی گئی تھی، وہ بھی انہوں نے نیلام کرا دی تھی اور نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم مختلف فلاحی امدادی منصوبوں کے لیے عطیہ کر دی گئی تھی۔
م م / ع ت / کے این اے
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔