1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عادل الجیر کے ایران پر الزامات: کیا بلی تھیلے سے باہر آ گئی؟

عبدالستار، اسلام آباد
18 فروری 2019

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی طرف سے ایران پر سنگین الزامات نے کئی حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔ کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ سعودی سرمایہ کاری کا مقصد صرف معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک بھی ہے۔

Außenminister Saudi-Arabien al-Jubeir in Kairo
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi

واضح رہے کہ آج جب ایرانی علاقے سیستان بلوچستان میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد تہران کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پوچھا گیا، تو انہوں نے انتہائی محتاط انداز میں جواب دینے کی کوشش کی۔ شاہ محمود نے کہا کہ انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب کو بتایا ہے کہ اسلام آباد کبھی بھی کسی دہشت گردانہ سرگرمی کو برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا،’’ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ہم اس کے لیے کبھی بھی کوئی مشکل کھڑی نہیں کریں گے اور یہ کہ پاکستان ایران کی خود مختاری اور جغرافیائی وحدت کا احترام کرتا ہے۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/SPA


دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سوال شاہ محمود سے کیا گیا تھا، جس کا انہوں نے بہت سفارتی انداز میں جواب دیا۔ تاہم ان کے جواب کے بعد سعودی وزیرِ خارجہ نے ایران پر الزامات کی بارش کردی اور اسے ایک ایسی ریاست کہا جو دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایران، جو خود دہشت گردی کا سب سے بڑا حمایتی ہے، وہ کیسے دوسروں کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام دے سکتا ہے۔انہوں نے تہران پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ مختلف دہشت گروہوں کی حمایت کرتا ہے، انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے اور انہیں پناہ دیتا ہے، بشمول اسامہ کے بیٹے کے۔
اس بیان سے کئی ناقدین یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے اور سعودی سرمایہ کاری دراصل خطے میں ایران کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے بین الاقوامی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان میکاوے لیین سیاست کر رہے ہیں اور اپنے حریفوں کو مات دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ’’محمد بن سلمان نے ایران کی وجہ سے اپنے اچھے دوستوں کو ناراض کیا۔ انہوں نے ایران کی وجہ سے قطر اور ترکی سے تعلقات خراب کیے۔ وہ تہران سے ہر جگہ بر سر پیکار ہیں۔ تہران کا خیال یہ ہے کہ سعودی عرب ایران مخالف عناصر کی ہر جگہ حمایت کر رہا ہے اور اگر سعودی گوادر میں آتے ہیں تو وہ بلوچستان میں ایران مخالف تنظیموں کی پشت پناہی کرے گا، جس سے تہران کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔‘‘

واضح رہے کہ بلوچستان مبینہ طور پر ماضی میں ایران مخالف تنظیم جنداللہ کا ٹھکانہ رہا ہے۔ تہران کا دعویٰ ہے کہ ایران میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث جیشِ العدل نے بھی اپنا ٹھکانہ پاکستانی بلوچستان کو بنایا ہوا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں شیعہ مسلمانوں پر گزشتہ بیس برسوں میں سینکڑوں حملے ہوئے ہیں۔ کئی ناقدین کو خدشہ ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی ایک بار پھر بڑھے گی۔ بلوچستان کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ان کا صوبہ ایک نئے تنازعے کامرکز بننے جارہا ہے۔

نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکڑ عبدالمالک کے خیال میں اس سرمایہ کاری کا صرف معاشی ہی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک پہلو بھی ہے،’’کوئی سرمایہ کاری صرف معاشی نہیں ہوتی بلکہ اس کا اسٹریٹیجک پہلو بھی ہوتا ہے۔ اور اس سرمایہ کاری کی بدولت سعودی عرب گوادر میں بیٹھنے جارہا ہے، جو ایرانی سرحد کے بہت قریب ہے۔ نہ صرف سعودی عرب یہاں آرہا ہے بلکہ دوسرے امریکی اتحادی جیسا کہ متحدہ عرب امارات بھی یہاں آرہے ہیں، جس سے نہ صرف پاک ایران تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ سی پیک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس سے ہمارے خطے میں تنازعات بڑھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ہورہی ہے لیکن نہ ہی بلوچستان کی عوام اور نہ ہی بلوچستان حکومت کو اس حوالے سے کچھ پتہ ہے۔‘‘


سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکا اور مغربی بلاک کا قریبی اتحاد رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں گزشتہ دس برسوں میں پاکستان مغربی کیمپ سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا لیکن اب صورتِ حال ایک بار پھر تبدیل ہورہی ہے۔ پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن کا خیال ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے،’’کچھ برسوں پہلے ہم چین، روس، ترکی اور ایران کے قریب ہورہے تھے لیکن اب سعودی سرمایہ کاری سے یہ لگ رہا ہے کہ ہم ایک بار پھر سعودی امریکی کیمپ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس سے نہ صرف ایران خفا ہو گا بلکہ چین بھی اس کو اچھا نہیں سمجھے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاض ایک طرف بلوچستان میں اور دوسری طرف امریکی انخلاء کے بعد ممکنہ طور پر اسلامی اتحاد کی فوج افغانستان بھیج کر ایران کو دونوں طرف سے گھیرنا چاہتا ہے لیکن اس کے نتائج خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔‘‘

تحریک انصاف نے انتخابات سے پہلے ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح صفائی کی بات کی تھی اور یمن کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ شور بھی عمران خان نے ہی مچایا تھا۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اسی اصول پر کاربند ہیں۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اسحاق خاکوانی نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں حکومت سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعے کی صورت میں فریق نہیں بنے گی کیونکہ ہمارے پہلے ہی اتنے مسائل ہیں کہ ہم اس طرح فریق بننا برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی تنازعہ ہوا تو ہم صلح کرانے کی کوشش کریں گے لیکن فریق نہیں بنیں گے۔‘‘

قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟

02:37

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں