لاہور منعقدہ تین روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس اتوار کی شام ختم ہو گئی، جس میں ملک میں آزادی اظہار، پارلیمانی بالا دستی اور منصفانہ احتساب کے عمل میں رکاوٹوں کے پس منظر میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر شدید تنقید بھی کی گئی۔
اشتہار
انسانی حقوق کی جہدوجہد کرنے والی معروف رہنما عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والی اس کانفرنس کی مجموعی طور پر 20 مختلف نشستوں میں 100 سے زائد مقررین نے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں آزادی صحافت، قانون کی بالا دستی، جموں کشمیر میں انسانی حقوق کے بحران، خواتین اور اقلیتوں کو درپیش مسائل، غیر منصفانہ احتساب، قومی سلامتی کے درست تصور، سوشل میڈیا کی صورتحال اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی بہتری کے امور سمیت کئی موضوعات پر تفصیل سے بات کی گئی۔ اس کانفرنس کا اہتمام عاصمہ جہانگیر لیگل سیل اور عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن نے پاکستان بار کونسل کے تعاون سے کیا تھا۔
اس کانفرنس میں بیرونی ممالک سے آنے والے وفود نے بھی شرکت کی جبکہ پاکستان کے مختلف حصوں سے صحافیوں، وکلاء، سیاسی رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں، مزدور رہنماؤں، دانشوروں اور طالب علموں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ برطانیہ اور کئی یورپی ممالک کے سفارتی حکام نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔ تاہم صحافیوں کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق اس کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈینیٹر سٹیون بٹلر کو 'سٹاپ لسٹ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لاہور سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ سی پی جے نے گزشتہ ماہ جاری کردہ اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے حالات مزید ناموافق ہو گئے ہیں۔
'صوبوں کو تاحال آئینی خود مختاری نہیں ملی‘
اتوار کے روز اس کانفرنس کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اور رکن قومی اسمبلی اختر مینگل نے کہا کہ صوبوں کو ابھی تک وہ خود مختاری نہیں ملی، جس کا وعدہ ان سے پاکستانی آئین میں کیا گیا ہے۔ ان کے بقول منتخب صوبائی حکومت صوبائی چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس تک کو تعینات نہیں کر سکتی اور ان کی تقرری بھی وفاقی حکومت کرتی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے میں کوئی خاتون انتخاب جیت سکتی ہے؟
پاکستان کے قبائلی علاقے میں خواتین کو ان کے سرپرست مرد ہی بتاتے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے؟ اس قدامت پسند علاقے میں صوبائی اسمبلی کی امیدوار ناہید آفریدی گھر گھر جا کر اپنے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman
کمیونٹی کے قریب
ناہید آفریدی کا انتخابی دفترخیبر ڈسٹرک کے جمرود نامی علاقے میں واقع ہے۔ اسی دفتر سے وہ تمام دیہات میں ہونے والے جلسوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے لیے ووٹ مانگنے کے ساتھ ساتھ قبائلی عمائدین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں بارہ مرد امیدوار بھی کھڑے ہیں۔ ووٹنگ بیس جولائی کو ہو گی۔
تصویر: Saba Rehman
نوجوان خواتین کے لیے ایک مثال
ایک چھوٹی سی لڑکی نے ناہید آفریدی کا اشتہار اپنے سینے پر چسپاں کر رکھا ہے۔ ناہید کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک پدرانہ معاشرے میں الیکشن مہم چلانا مشکل کام ہے لیکن وہ نوجوان خواتین کے لیے اعتماد، جرات اور قیادت کی ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہیں۔ مقامی خواتین کو تو ان کی ریلیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں ہے لیکن بچے ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔
تصویر: Saba Rehman
قبائلی عمائدین سے ملنے والی پہلی خاتون
چالیس سالہ ناہید قبائلی عمائدین کو ان کے حجروں میں جا کر مل رہی ہیں۔ حجرہ ایک روایتی قبائلی جگہ ہوتی ہے، جہاں مرد جمع ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو اور بحث کرتے ہیں۔ اس علاقے میں حجرے میں عمائدین سے ملاقات کرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔ عمومی طور پر خواتین کو حجرے میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
تصویر: Saba Rehman
مقامی لوگوں کے مسائل
ناہید آفریدی کے اردگرد مقامی دکاندار جمع ہیں اور وہ اپنی انتخابی تقریر میں یہ بتا رہی ہیں کہ وہ کیوں علاقائی اسمبلی میں جانا چاہتی ہیں۔ ناہید کے مطابق ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ گاؤں گاؤں جا کر براہ راست سب سے بات کریں اور انہیں ووٹ دینے کے لیے قائل کریں۔
تصویر: Saba Rehman
ہر ایک ووٹ اہم ہے
چھوٹے بچے ناہید آفریدی کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کاروں پر اسٹیکر چسپاں کر رہے ہیں۔ بچے ناہید آفریدی کے انتخابی بینر اور اسٹیکر گلیوں، گھروں اور چوراہوں میں بھی لگا رہے ہیں۔ جہاں دیگر خواتین کو ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کی اجازت نہیں ہے، وہاں بچے شوق سے ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman
ایک نئی آواز
ناہید آفریدی کے مطابق ان کی انتخابی مہم کا مقصد صرف مقابلہ بازی نہیں ہے بلکہ وہ صوبائی اسمبلی میں پہنچ کر علاقے کی خواتین کے مسائل کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں۔ ایک مقامی سوشل ورکر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقامی مرد نہ تو خواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور نہ ہی یہ پسند کرتے ہیں کہ خواتین اپنے حق کی بات کریں۔
تصویر: Saba Rehman
قبائلی علاقے کے لیے ایک مثال؟
ناہید آفریدی کی انتخابی مہم علاقے کی ایسی خواتین کے لیے ایک پیغام ہے، جنہیں نہ تو اسکول جانے دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں ایک نوجوان ان کے ساتھ سیلفی بنا رہا ہے۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کی خواتین سے بھی کہے گا کہ وہ ناہید آفریدی کو ہی ووٹ دیں۔
تصویر: Saba Rehman
7 تصاویر1 | 7
اختر مینگل نے الزام لگایا کہ کوئٹہ یونیورسٹی میں طالبات کے کمروں میں کیمرے لگائے گئے، بچیوں میں تعلیم کی شرح وہاں پہلے ہی کم ہے، اور اب وہاں والدین مزید پریشان ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول اس صورت حال کے باوجود اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ابتدائی طور پر نہیں ہٹایا گیا تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر نے منصفانہ احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پوچھا کہ آیا پاکستان میں صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہیں؟
انہوں نے کہا کہ دیگر اداروں کے اہلکاروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے اور ملک توڑنے، ڈالروں کے عوض پاکستانی شہریوں کو دوسرے ممالک کے حوالے کرنے اور منتخب حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے والوں کو بھی جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
'بلوچستان سے پانچ ہزار افراد لاپتہ‘
اختر مینگل نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات پاکستان کے ہر شہر میں پیدا ہوں، تو ہی شاید ملک میں الیکشن منصفانہ ہو سکتے ہیں، صوبے اور سینیٹ با اختیار ہو سکتے ہیں، ''پارلیمنٹ میں فاٹا کی نمائندگی تو ہے لیکن وزیرستان کے وہ ارکان پارلیمان جنہوں نے احتجاج کیا تھا، مشکل سے ہی اپنی جان بچا کر واپس آئے ہیں۔‘‘
اختر مینگل کے مطابق بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے اور پچھلے ایک سال میں صرف 400 افراد کو بازیاب کرایا جا سکا۔
ہزارہ برادری: خوف، حوصلہ اور خود اعتمادی
ہزارہ برادری بلوچستان میں آباد ایک نسلی گروہ ہے۔ انتہا پسندوں کے حملوں کہ وجہ سے اس کمیونٹی کے لوگ اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ثقافت انتہائی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
خریداری بھی پہرے میں
ہزارہ برادری کے تاجر کوئٹہ کی مرکزی مارکیٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ انہیں اس مقصد کے لیے ایک چیک پوائنٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے رہائشی علاقے کے گرد ایک بڑی دیوار تعمیر کی گئی ہے تاکہ وہ عسکریت پسندوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ مارکیٹ آتے جاتے وقت فوجی ان کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
پاکستان سے محبت
ہزارہ برادری افغانستان کا ایک نسلی گروہ ہے لیکن ایک ملین کے قریب ہزارہ افراد پاکستان میں آباد ہیں اور اسی ملک کو وہ اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ سینکڑوں ہزارہ افراد فوج میں ملازمت کرتے ہیں جب کہ ان کے علاقے میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت کوئٹہ کے ہزارہ اور ماری آباد ٹاؤن میں رہائش پذیر ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
الفاظ کی طاقت
نوید علی کے سینے پر ’اپنی طاقت پر اعتماد کرو‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کا ایک مطلب بیرونی حملوں کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔ تئیس سالہ نوید ہزارہ ٹاؤن میں باڈی بلڈنگ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ورزش نہ صرف صحت کے لیے کرتے ہیں بلکہ یہ انہیں منشیات سے دور رہنے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
دفاع لیکن پرامن
ہزارہ جب بھی اپنے مطالبات اور حفاظت کے لیے احتجاج کرتے ہیں، پرامن طریقے سے ہی کرتے ہیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پرامن دھرنے اور احتجاج کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ صوبائی پارلیمان میں ان کی دو سیٹیں ہیں۔ اس کُنگفو ماسٹر مبارک علی کے مطابق ہزارہ برادری کی ’امن سے محبت کم نہیں‘ ہو گی۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
محاصرے میں ناشتہ
تیس سالہ وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن سردار سہیل کا اپنی والدہ کے ہمراہ ناشتہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم کئی برسوں سے محاصرے والی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری حفاظت کے لیے اردگرد چیک پوائنٹس بنائی گئی ہیں لیکن اس کی وجہ سے آپ دیگر علاقوں سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Soomro
پستول اور خدا پر بھروسہ
ہزارہ نسل کا تعلق منگولیا کے خطے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نین نقش اور چہروں کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ عسکریت پسند اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سردار سہیل گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ پستول اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ سردار سہیل کے مطابق ان کا ایمان بھی انہیں تقویت دیتا ہے اور وہ گھر سے رخصتی کے وقت ہمیشہ اپنی والدہ کے ہاتھ چومتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
ثقافتی سرگرمیاں
کوئٹہ میں ہزارہ برادری اپنی تاریخ، موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جون کے اختتام پر ایسے ہی ایک ثقافتی میلے کا آغاز بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کیا۔ وہ اور دیگر شرکا ہزارہ افراد کی روایتی ثقافتی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
روایات نئی نسل کے حوالے
اسی روایتی میلے میں ایک چھوٹی سی لڑکی کڑھائی کا کام کر رہی ہے۔ لیکن روایتی لباس کے ساتھ وہ خود بھی ایک آرٹ کا نمونہ لگ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
تعلیم میں سرمایہ کاری
محمد آصف کی نظر میں تعلیم سب سے اہم ہے۔ وہ ماری آباد میں ایک سکول چلاتے ہیں۔ بچے صبح کی دعا کے لیے جمع ہیں۔ محمد آصف کے مطابق وہ نوجوانوں کے لیے معاشرے میں بہتر مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
ایک نظر مستقبل پر
ماری آباد کے اسکول کی اس بچی کے مستقبل کا انحصار صرف اور صرف ان پر ہونے والے حملوں کی بندش پر ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی حفاظت اور آزادی ہی ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کی بالا دستی اور وفاقی پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور میڈیا کا آزاد ہونا بھی لازمی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کا موقف
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سید افتخار حسین نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے ملک کو متفقہ آئین دیا، دہشت گردوں کے خلاف اونچی آواز اٹھائی، آپریشن کی ذمے داری بھی قبول کی، اپنے بارہ سو لوگ شہید کروائے۔ ہماری وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا لیکن آج ہمیں ہی غداری کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ اگر آئین بنانے والے کمزور کر دیے جائیں یا انہیں جیلوں میں ڈال دیا جائے اور آئین توڑنے والے طاقتور ہو جائیں تو یہ ملک آئین کے مطابق کیسے چل سکتا ہے؟‘‘
افتخار حسین کے بقول بالا دست قوتوں کو اٹھارہویں ترمیم اس لیے ناپسند ہے کہ اس کے تحت زیادہ مالی وسائل صوبوں کو دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں۔ ماضی میں وفاق کی مضبوطی کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں نے ملک توڑ دیا تھا۔ اس لیے تمام صوبوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔‘‘
اے این پی کے اس رہنما نے کہا، ''اب خیبر پختونخوا میں آرڈیننس کے ذریعے ایک قانون لایا جا رہا ہے کہ حکومتی ایجنسیاں بغیر ایف آئی آر کے کسی بھی شخص کو کہیں سے بھی گرفتار کر سکتی ہیں۔ ملک میں صرف دو جماعتوں کے خلاف احتساب چل رہا ہے۔ ہمیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا۔ نواز شریف کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔‘‘
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
قومیتوں کو شناخت دینے سے مضبوطی
اس کانفرنس کے ایک اور سیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کا کہنا تھا، ''کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کس نے سیاست کرنا ہے اور کس نے نہیں، کس کا انٹرویو میڈیا پر چلے گا اور کس کا نہیں، کس کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور کس کو نہیں یا پھر یہ کہ کس کی حکومت بنے گی اور کس کی نہیں۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومیتوں کو شناخت دینے اور عوام کے حقوق کا احترام کرنے سے ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں۔
پاکستان سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی طفر کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم سے صحت اور تعلیم سمیت کئی شعبوں میں مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں اکثریت کی رائے پر قانون کی رائے کو فوقیت دی جانا چاہیے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے احسن اقبال نے کہا کہ آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کی سلامتی کو افواج کی تعداد یا اسلحے کے ذخائر بڑھا کر یقینی نہیں بنایا جا سکتا بلکہ ایسا اقتصادی سلامتی کو یقینی بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس کانفرنس سے خطاب کرنے والے دیگر مقررین میں ممتاز وکلاء رہنما علی احمد اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی شامل تھے۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقدہ اس تین روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے موقع پر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ایک مختصر نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔