پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی شریک بانی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر کے جسد خاکی کو لاہور میں بیدیاں روڈ پر واقع ان کے ذاتی فارم ہاؤس میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
عاصمہ جہانگیر کا آخری سفر، چند تصاویر
انسانی حقوق کی معروف پاکستانی کارکن اور سینیئر وکیل عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے صاحب زادے سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں سیاسی و سماجی شخصیات سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھی نماز جنازہ میں شریک تھے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، سابق وفاقی وزیر پرویز رشید، اعتزاز احسن اور علی احمد کرد بھی شریک ہوئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
عوامی نیشنل پارٹی کا ایک وفد بھی افتخار حسین کی قیادت میں خاص طور پر لاہور پہنچا تھا۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نماز جنازہ کے موقع پر خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
6 تصاویر1 | 6
اس سے پہلے منگل کی سہ پہر عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ قذافی اسٹیڈیم کے باہر ادا کی گئی، اس موقعے پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ قذافی سٹیڈیم آنے والے تمام راستوں کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا اور نماز جنازہ میں آنے والوں کو ایک ہی راستے سے تلاشی لیے جانے کے بعد شرکت کی اجازت دی گئی۔
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے صاحب زادے سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں سیاسی و سماجی شخصیات، وکلا ، سول سوسائٹی سے وابستہ افراد اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ یہاں پہنچے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک وفد بھی اے این پی کے رہنما افتخار حسین کی قیادت میں خاص طور پر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور پہنچا تھا۔ نماز جنازہ کے موقع پر خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں چیئرمین سینٹ رضا ربانی، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، نجم سیٹھی، صحافی امتیاز عالم، وفاقی وزیر سعد رفیق، مہ ناز رفیع، اعتزاز احسن، علی احمد کرد ، پرویز رشید، افراسیاب خٹک ، افتخار حسین اور اکرم شیخ ایڈوکیٹ بھی شامل تھے۔
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عاصمہ نے اپنے چند ساتھیوں سے مل کر سن 1984 میں انسانی حقوق کے کمیشن کی بنیاد رکھی اور وہ پاکستان میں بے آواز لوگوں کی آواز بنیں۔ ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت ایک حقیقت ہے لیکن عاصمہ کی موت سے پاکستان میں پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر ردعمل
02:55
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول عاصمہ جہانگیر نے قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوریت کی بالا دستی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ان کے راستے میں مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کیے گئے لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد کے لیے ڈٹی رہیں۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ حالات کو ہمیشہ مذہبی حوالوں سے دیکھتا ہے۔ ان کے بقول، ’’پاکستانی معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کا حامل ایک اقلیتی طبقہ پورے پاکستانی معاشرے کو اس وقت کنٹرول کر رہا ہے۔لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ عا صمہ کے بعد بھی ان کے جلائے ہوئے چراغ کو بجھنے نہ دیں اور یہ جدو جہد جاری رہے۔‘‘
ایک دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عاصمہ جہانگیر کی وفات انتہائی افسوسناک ہے اس پر ہم سب غم زدہ ہیں کیونکہ ہم ان کی قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر اپنی بعض پالیسیوں کے باعث پاکستانی معاشرے میں متنازعہ حیثیت بھی اختیار کر چکی تھیں۔ بریگیڈیئر خان کے مطابق، ’’ان کے بھارت کی حمایت اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بنایات پاکستان میں بہت سے لوگوں کو پسند نہیں تھے۔ خاص طور پر ان کا بنگلہ دیش کی حکومت سے ایوارڈ لینا بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔ اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے کے لیے ان کی خدمات بھی نمایاں تھیں۔ لیکن اس صورتحال میں میری رائے یہ ہے کہ ان کے لیے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور مسلم لیگی رہنما پرویز رشید سمیت کئی شخصیات نے عاصمہ جہانگیر کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا مطالبہ کیا تھا۔
ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
تصویر: cshr.org
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
تصویر: irane emrooz
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
تصویر: humanrights-ir.org
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
تصویر: melliun.org
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔