عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے مبینہ اثاثے، رپورٹ اور ردِ عمل
بینش جاوید | شمشیر حیدر | عبدالستار، اسلام آباد
28 اگست 2020
پاکستانی صحافی احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے تیزی سے بڑھتے کاروبار پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک تحقیقاتی رپورٹ ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائٹ پر شائع کی۔
اشتہار
رپورٹ شائع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عاصم باجوہ نے ایک ٹوئیٹ کے ذریعے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔
رپورٹ کیا کہتی ہے؟
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2002 سے قبل عاصم سلیم باجوہ ان کی اہلیہ، بیٹوں اور بھائیوں کے نام پر کوئی کاروبار نہ تھا۔ لیکن یہ صورتحال تب تبدیل ہونا شروع ہو گئی جب وہ سابق پاکستانی صدر اور فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر تعینات ہوئے۔ احمد نورانی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ نے امریکا، متحدہ عرب امارات اور کینیڈا میں سرمایہ کی ہوئی ہے حالانکہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات میں کہا ہےکہ ان کی اور ان کی بیوی کی پاکستان سے باہر کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔
احمد نورانی کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بیٹے نے اس وقت ایک مائننگ کمپنی شروع کی جب باجوہ بلوچستان میں جنوبی کمانڈ کے کمانڈر تھے۔ پاکستان میں ان کے بھائی جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں نے بھی اسی دور میں 'لیبر اینڈ مین پاور سپلائی‘ کمپنی کا آغاز کیا۔ اس رپورٹ میں احمد نورانی مزید کہتے ہیں کہ عاصم باجوہ کی اہلیہ سمیت ان کے خاندان کے افراد 'باجکو ٹیلی کام‘ اور 'فاسٹ ٹیلی کام‘ کے مالک ہیں۔ یہ کمپنیاں ایس ای سی پی میں رجسٹر نہیں ہیں لیکن بہت متحرک کمپنیاں ہیں۔
احمد نورانی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحقیقیاتی رپورٹ کے دوران عاصم باجوہ سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں ان کمپنیوں کے فنانشنل ریکارڈ فراہم کریں لیکن انہوں نے احمد نوارنی کو کوئی جواب نہ دیا۔ احمد نوارنی یہ بھی کہتے ہیں عاصم باجوہ جب بلوچستان کی جنوبی کمانڈ کے سربراہ تھے اس دور میں ان کے خاندان نے امریکا میں دس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ احمد نوارانی نے اس رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ سب شروع کیسے ہوا؟ کمپنیاں کھولنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور تین ہفتے تک رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود عاصم باجوہ خاموش کیوں رہے۔
پاکستانی فوج کے دیگر سابق جنرلز عاصم باجوہ کی حمایت میں
احمد نورانی کی اس رپورٹ شائع ہونے کےبعد عاصم باجوہ نے ٹوئٹر پر اس رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ ڈی ڈبلیو نے بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ تاہم اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے میجرجنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان سے گفتگو کی۔ ان کا کہنا ہے ،''عاصم سلیم باجوہ ایک انتہائی ایماندار اور باکردار آدمی ہیں۔ ان کو صرف اس لیے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ہیں اور سی پیک پر تیزی سے کام کر رہا ہیں، جو خطے اور خطے سے باہر کے کچھ ممالک کو پسند نہیں ہے۔ تو وہ پاکستان میں کچھ عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں تاکہ وہ ایسے باجوہ جیسے لوگوں کی کردار کشی کر سکیں اور سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات صرف عاصم سلیم باجوہ کے خلاف ہی نہیں لگائے گئے بلکہ دوسرے جنرلوں کے خلاف بھی لگائے گئے، ''تو اس مہم کا ایک مقصد یہ ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشیں کی جائیں اور ان سازشوں کا امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے اور بھارت اور افغانستان کی جاسوسی ایجنسیوں کے ارادوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، جو پاکستان آرمی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ یہ ملک کی سب سے مستحکم فورس ہے، جس نے پاکستان کو سنبھالے رکھا ہے اور جب تک یہ مضبوط ہے ملک پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔‘‘
اسی موضوع پر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے،'' ایسا لگتا ہے کہ اس مہم کے پیچھے پی ایم ایل این ہے اور لازمی بات ہے جب آرمی کے خلاف بات ہوتی ہے تو غیر ملکی ایجنسیاں اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں،نون لیگ احمد نورانی جیسے لوگوں کی پشت پر ہے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کیونکہ ن لیگ کی تاریخ آرمی مخالفت کی تاریخ ہے۔ کیا نواز نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم نے کیوں ممبئی جا کر دھماکے کرائے۔ ڈان لیکس کس نے کی اور اب یہ عاصم سلیم باجوہ کے خلاف یہ بیہودہ الزامات لے کر آئے ہیں اور اس کا صرف مقصد آرمی کو بدنام کرنا ہے۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی عاصم سلیم سے بات ہوئی ہے،''عاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ ان کے دو بھائی پچیس برس سے بھی پہلے امریکا گئے تھے، جہاں انہوں نے محنت مزدوری کی اور بعد میں بزنس شروع کیا۔ ان کا اس بزنس سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی ان کے بیٹے کا ہے، جو وہاں پڑھنے کے لیے گیا تھا۔ ان کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور اس طرح کے الزامات میں گل بخاری، جو پی ایم ایل کی حمایتی ہے، گلالئی اسماعیل کو آرمی مخالف پی ٹی ایم کا حصہ ہے اور دوسرے لوگ شامل ہیں جب کہ حسین حقانی ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ پی ایم ایل ن اس لیے یہ کر رہی ہے کیونکہ وہ سی پیک اتھارٹی کے خلاف تھے اور اپنے بندوں کو ٹھیکے دے رہے تھے۔ اب سی پیک اتھارٹی میں ہر چیز اوپن اور شفاف ہے۔ اس لئے انہیں تکلیف ہے۔‘‘
اشتہار
عاصم باجوہ کے مبینہ اثاثے اور سوشل میڈیا
رپورٹ شائع ہونے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ان کی حمایت اور مخالفت میں بحث کر رہے ہیں۔
کئی صارفین یہ سوال پوچھتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آیا اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کی طاقتور فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی؟ دوسری طرف جنرل باجوہ کی حمایت کرنے والے صارفین اس رپورٹ اور اس کے بعد پوچھے جانے والے سوالات کو ملکی فوج اور سی پیک کے خلاف مبینہ 'بھارتی پراپیگنڈا‘ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے سابق جنرل نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ''ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف پرپیگنڈا کہانی شائع کی گئی، جس کی پرزور تردید کی جاتی ہے۔‘‘
اسی ٹویٹ کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا، ''جنرل صاحب معذرت۔ رپورٹ کو مسترد کرنا تو ٹھیک ہے لیکن عوامی عہدیدار ہونے کے ناطے ایک سطری انکار کافی نہیں ہے۔‘‘
پاکستانی محقق عائشہ صدیقہ نے لکھا، ''زیادہ بہتر یہ ہو گا اگر وہ (عاصم باجوہ) اب اپنے ان تمام اثاثوں کی، جو قانونی طور پر ان کے نام ہیں یا نہیں ہیں، تفصیلات پیش کریں۔ بہتر ہے کہ پارلیمان میں پیش کی جائیں۔‘‘
گلالئی اسماعیل نے لکھا، ''عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کے بیانیے پر الیکشن لڑا، کیا اب وہ عاصم باجوہ سے منی ٹرائل مانگیں گے؟‘‘
اشفاق خان نامی صارف نے لکھا، ''احتساب سب کا ھونا چاہیے عاصم باجوہ کا بھی ہونا چاہیے لیکن جو لوگ اس وقت عاصم باجوہ کے خلاف ریفرنس داٸر کرنے اور منی ٹریل مانگنے کی بات کرتے ہیں وہ دراصل افواج پاکستان اور پاکستان مخالف عناصر ہیں۔‘‘
اب تک اس بارے میں #BajwaLeaks اور #asimbajwaourpride جیسے ہیش ٹیگز استعمال کرتے ہوئے ہزاروں ٹوئیٹس کی جا چکی ہیں۔ بعض صارفین کے مطابق پاکستان میں رپورٹ شائع کرنے والی ویب سائٹ تک رسائی نہ ہونے کی شکایات بھی کی جا رہی ہیں جب کہ صارفین نے اس رپورٹ کے لنک دیگر ویب سائٹس سے بھی شیئر کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔