عالمگیر تجارتی ’دھوکے بازوں‘ کے خلاف ٹرمپ کے دباؤ میں اضافہ
1 اپریل 2017اپنے اوول آفس میں دو صدارتی فرامین جاری کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا:’’آئندہ جو بھی قوانین کو توڑے گا، اُسے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور یہ نتائج بہت ہی سنگین ہوں گے۔‘‘
پہلا فرمان زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہے، جس میں حکام کو اُن ’دھوکے باز‘ ملکوں اور کمپنیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جن کی وجہ سے امریکا کو تقریباً پچاس ارب ڈالر ماہانہ کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے زیادہ تر ڈیٹا پہلے ہی معلوم اور دستیاب ہے تاہم ٹرمپ کے اس اعلان کو چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اُن کی پہلی ملاقات سے ایک ہفتہ قبل ایک تامینی تنبیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ ’پہلے امریکا‘ کی گردان کرتے ہوئے مسلسل یہ کہتے رہے کہ وہ امریکا کے تجارتی تعلقات کو ایسا رُخ دینا چاہتے ہیں، جس میں آئندہ امریکا زیادہ فائدے میں رہے۔
ٹرمپ نے کہا:’’ہمارے ملک سے ہزاروں فیکٹریاں چُرا لی گئی ہیں لیکن اب گونگے امریکیوں کو ایک آواز مل گئی ہے، جو وائٹ ہاؤس میں موجود ہے۔ امریکا اور امریکی مزدور کی خوشحالی میرا نصب العین ہے۔‘‘
وزیر تجارت وِلبر رَوس مختلف ملکوں اور مصنوعات کا ایک ایک کر کے جائزہ لینے کے بعد نوّے روز کے اندر اندر اس بارے میں اپنی تحقیق کے نتائج سے ٹرمپ کو آگاہ کریں گے کہ کون کون سے ملک یا کمپنیاں ’دھوکے بازی‘ کرتے ہوئے، تجارتی سمجھوتوں کی پاسداری نہ کرتے ہوئے یا دیگر طریقوں سے امریکا کے تجارتی خسارے کا سبب رہی ہیں۔
وِلبر رَوس نے کہا کہ ان ملکوں میں بلاشبہ چین سرِفہرست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کینیڈا، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، آئر لینڈ، اٹلی، جاپان، ملائیشیا، میکسیکو، جنوبی کوریا، سوئٹزرلینڈ، تائیوان، تھائی لینڈ اور ویت نام بھی ہیں۔
ساتھ ہی رَوس نے البتہ یہ بھی کہا کہ خسارے کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر کوئی جوابی یا انسدادی اقدامات بھی کیے جائیں گے:’’یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ کوئی ہمیں ایسی مصنوعات فراہم کرتے ہوئے، جو ہم فراہم نہیں کر سکتے، بُرا کام کر رہا ہے۔‘‘
اپنے دوسرے فرمان میں ٹرمپ نے حکومت سے اُن مصنوعات پر تجارتی محصولات لینے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کہا ہے، جنہیں غیر ملکی حکومتیں سرکاری اعانت دیتی ہیں یا جو امریکی منڈی میں ڈَمپ کر دی گئی ہیں یعنی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر امریکا میں ذخیرہ کر دی گئی ہیں۔
ٹرمپ کے مطابق یہ دوسرا فرمان اس امر کو یقینی بنائے گا کہ دھوکہ دہی کرنے والے تمام اہم درآمد کنندگان کے ذمے واجب الادا تمام تر محصولات مکمل طور پر وصول کیے جائیں۔ جن شعبوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے، اُن میں اسٹیل (فولاد)، زرعی مصنوعات، کیمیکلز اور مشینری وغیرہ بھی شامل ہیں۔
جرمنی نے فوری طور پر امریکا کی طرف سے اسٹیل کی پلیٹوں کی مصنوعات پر مجوزہ نئے محصولات پر احتجاج کیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے الزام عائد کیا کہ یہ اقدامات عالمگیر تجارتی اصولوں کے خلاف ہیں اور اس سے جرمنی ہی نہیں بلکہ آسٹریا، بیلجیئم، فرانس، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کی کمپنیاں بھی نقصان میں رہیں گی۔
اٹلی نے بھی نئے مجوزہ امریکی اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نتیجے میں اُس کی وَیسپا اسکوٹر جیسی مصنوعات کو تعزیری محصولات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔