جرمن حکومت نے اقوام متحدہ کی مہاجرین کے ادارے کو 135 ملین امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ اس وقت شدید مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یا UNHCR کو برلن حکومت کی جانب سے 135 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا اعلان جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے کیا۔ ماس نے امداد فراہم کرنے کا اعلان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔
ماس نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ یہ اقوام عالم کے لیے باعث شرمندگی ہے کہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کی بہبود کے ادارے UNHCR کے سربراہ کو مختلف ملکوں میں مہاجرین کی فلاح و بہود کی سرگرمیاں اور کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے شدید مالی امداد کی ضروت ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے امیر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بین الاقوامی ادارے کی امداد میں حصہ لیں تا کہ جنگ زدہ اور تنازعات کے ممالک سے گھربار چھوڑ کر اپنی جانیں بچانے والے انسانوں کی مدد کی جا سکے۔ جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے اعلان کی گئی مالی امداد خاص طور پر خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے مہاجرین کے لیے مختص کی گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمنی اقوام متحدہ کے ادارے UNHCR کو مالی امداد فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ برلن حکومت اس پر غور کر رہی ہے کہ اس ادارے کے لیے مزید اتنی ہی (135 ملین امریکی ڈالر) امداد جاری کی جائے تا کہ لبنان کے علاوہ اردن میں بھی شامی مہاجرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اپنا وطن چھوڑ کر دیگر مقامات پر مقیم شامی مہاجرین کی تعداد چھپن لاکھ سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک بھی بے گھر افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لبنان سے شام واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافے ہو رہا ہے۔
دوسری جانب جرمن حکومت کے لیے اپنے ملک میں مہاجرین کا مسئلہ اب ایک درد سر بن چکا ہے۔ میرکل حکومت مسلسل اپنی مہاجرت کی پالیسی اور سیاسی پناہ دینے کے ضوابط کو سخت سے سخت تر کرتی جا رہی ہے۔
کابل کی شدید سردی، وطن لوٹنے والے مہاجرین مشکل میں
نارویجین ریفیوجی کونسل کے مطابق سن 2016 میں اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور پندرہ ہزار افغان شہریوں نے کابل میں رہائش اختیار کی۔ ان میں سے اکثر افغان خاندان انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں
تھنک ٹینک ’سیمیول ہال‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابل میں پچاس سے زائد ایسی بستیاں قائم ہیں جہاں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے
سن 2016 میں پاکستان سے چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین افغانستان لوٹے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور رضا کارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کو دی جانے والی رقم میں دوگنا اضافے کے باعث مہاجرین کی واپسی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/F. U. Khan
انتہائی برے حالات
’سیمیول ہال‘ کے سروے کے مطابق کابل اور اس کے گرد و نواح میں قائم بستیوں میں اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری یا پاکستان اور دیگر ممالک سے واپس آنے والے افغان مہاجرین انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اوسطاﹰ ہر خاندان کی ماہانہ آمدنی 6855 افغانی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سوکھی گھاس کا استعمال
کابل کی ایک بستی میں افغان خاندان برفانی سردی سے بچنے کے لیے سوکھی گھاس استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان واپس آنے والے بہت سے خاندانوں کو خوراک، گرم کپڑوں اور مناسب رہائش کی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شالے خان کا خاندان
ستر سالہ شالے خان 1980 کی دہائی میں افغانستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ ساڑھے تین ماہ قبل شالے خان اور ان کے پوتے پوتیاں پاکستان سے خالی ہاتھ افغانستان پہنچے تھے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل نے شالے خان کے خاندان کے لیے ایک گھر تعمیر کیا ہے۔ اب کابل کی شدید سردی میں ان کے پاس رہائش کا مناسب انتظام ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
سردی نے مشکلات بڑھا دیں
ایک نوجوان لڑکا امدادی ادارے کی جانب سے دیے جانے والے پمپ کی مدد سے پانی نکال رہا ہے۔ آس پاس کئی افغان مہاجرین اور اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والے افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
گرم پانی کی کمی
افغانستان کے صوبے وردک سے نقل مکانی کرنے والی ایک افغان خاتون کابل کے نواح میں برف کے پانی سے کپڑے دھو رہی ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
کابل میں برف باری
اس ہفتے برف باری نے کابل شہر کو برف سے ڈھک دیا ہے۔ برف باری اور شدید ٹھنڈ نے افغان شہریوں کی مشکل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مہاجرین بچے
اپنے وطن واپس پہنچنے والے یہ مہاجرین بچے برف میں کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی جانب سے ان بچوں کو کمبل، گرم لباس اور جوتے فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ کابل میں اب بھی کئی خاندانوں کو سردی کے موسم کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
مسکراتے چہرے
سات سالہ بی بی ہوا اور ایک سالہ شکریہ کیمرے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ بی بی ہوا کو سردی سے بچاؤ کے لیے مناسب خوراک اور لکٹری یا گیس کے ہیٹر کی ضرورت ہے۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
خوراک کی کمی
پاکستان سے اپنے وطن لوٹنے والی ان افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کو مناسب مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے۔ یہ اور ان کے اہل خانہ دو وقت ہی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نہ ہی کوئلہ ہے اور نہ ہی لکڑی اس لیے وہ آگ جلا کر اپنے بچوں کو سردی سے نہیں بچا سکتیں۔
تصویر: NRC/Enayatullah Azad
شائمہ اور عائشہ
ایک سالہ شائمہ اور آٹھ سالہ بی بی عائشہ امدادی ادارے کی جانب سے تعمیر کیے گئے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں رہنے والا ان کا خاندان آٹھ ماہ قبل افغانستان پہنچا تھا۔