عالمی ادارہ صحت: تین سال میں پہلا بالمشافہ اجلاس اگلے ہفتے
21 مئی 2022
عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کے سو سے زائد وزراء کووڈ انیس کی عالمی وبا کے نتیجے میں تین سال میں پہلی مرتبہ اس عام اجلاس میں ذاتی طور پر شریک ہوں گے، جس میں اس ادارے کی تاریخ کے مصروف ترین ایجنڈے پر بحث کی جائے گی۔
اشتہار
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اگلے ہفتے شروع ہونے والے اس اجلاس میں سو سے زائد ممالک کے وزرائے صحت شریک ہوں گے۔ اس اجلاس کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد آگے بڑھنے کے ایک تاریخی موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے باعث اب تک دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس عالمی ادارے کی اسمبلی میں متوقع موضوعات کا جائزہ:
فنڈنگ میں اضافہ
صحت کے اس عالمی ادارے کی مالی ضروریات پورا کرنے کے لیے عطیہ دہندگان نے گزشتہ ماہ ایک اہم ڈیل پر اتفاق کیا تھا۔ اس ڈیل کے تحت ڈبلیو ایچ او کے لیے لازمی مالی معاونت کو بتدریج اضافے کے ساتھ آئندہ چھ سے آٹھ بر س کے دوران کل بجٹ کے 50 فیصد تک لایا جائے گا۔ اس کے بدلے میں ڈبلیو ایچ او عطیات فراہم کرنے والے ممالک کی جانب سے پیش کردہ اصلاحات کی تجاویز کا جائزہ لے گا۔
اس وقت ڈبلیو ایچ او کے مجموعی بجٹ میں عطیات کی رقوم کا حصہ صرف 16 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے بہت سے منصوبوں پر کام نہیں کر سکتا کیونکہ یہ رقوم سبھی منصوبوں کی تکمیل کے لیے کافی نہیں۔ ڈبلیو ایچ او اور ڈونر ممالک کے درمیان نئے معاہدے کی منظوری منگل 24 مئی کے روز دیے جانے کی توقع ہے۔
ٹیڈروس کا دوبارہ انتخاب
عالمی ادارہ صحت کے نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے دہی اسی اجلاس میں منگل ہی کے روز ہو گی۔ ووٹنگ کے نتیجے میں ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے اس ادارے کے موجودہ سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس کا دوبارہ انتخاب یقینی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے کانگو میں تعینات عملے کے جانب سے مبینہ جنسی زیادتیوں کے معاملے پر گیبریسس کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ تاہم اس کے علاوہ بھی وہ چند دیگر تنازعات کا شکار رہے مگر پھر بھی دوبارہ انتخاب کے لیے فیورٹ سمجھے جاتے ہیں۔
توقع ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ اپنے ادارے کے مرکزی 'تین ارب‘ نامی اہداف کا جائزہ بھی لیں گے، جن کا مقصد صحت کی سہولیات کی عالمی سطح پر فراہمی اور صحت کی ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔
یوکرین
اس عالمی ادارے کی یورپی شاخ نے اسی مہینے روس کے خلاف ایک قراداد منظور کرتے ہوئے ٹیڈروس سے کہا تھا کہ وہ یوکرین میں صحت کی ہنگامی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ تیار کریں۔ اب رکن ممالک روس کے خلاف ایک نئی قرارداد تیار کر رہے ہیں، جسے منظوری کے لیے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ تاہم سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ امکان نہیں کہ ایسی کسی قرارداد کے نتیجے میں روس اس ادارے میں اپنے رائے دہی کے حق سے محروم ہو جائے۔
کووڈ کے دوران والدین کو کھو دینے والے بچے
امریکا میں کووڈ انیس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ گئی ہیں۔ اس وبا کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین یا کم از کم ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہو گئے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’افسوس ناک ترین واقعہ‘
چودہ سالہ جولیئس گارزا اپنے والد کے دکھ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد دسمبر سن 2020 میں کووڈ انیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ وہ اور اس کا بھائی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب سن 2015 میں ان دونوں کو مارگریٹ اور ڈیوڈ نے اپنی کفالت میں لیا تھا۔ جولیئس کے مطابق ڈیوڈ کی موت اس کی زندگی کا انتہائی دکھ بھرا وقت تھا اور شاید وہ اس کو کبھی بھی بھول نہیں سکے گی۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
والد کی یاد میں
جولیئس گارزا کی عمر چودہ اور ان کا بھائی عیدان گارزا کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ اپنے والد کو ہر مہینے کی تیس تاریخ کو خاص طور پر اپنی دعا میں یاد کرتے ہیں۔ مارگریٹ کے شوہر مرحوم ڈیوڈ کی سالگرہ تیس اپریل کو ہوتی ہے اور وہ کووڈ انیس کی وجہ سے تیس دسمبر سن 2020 کو موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
صورت حال سمجھنے کی کوشش
مارگریٹ گارزا اور ان کا بیٹا جولیئس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ اور ان کے بھائی کے اصل والد کو سوتیلی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ ان کے کفیل بن گئے تھے۔ اب جولیئس اس کوشش میں ہے کہ وہ ڈیوڈ کی موت کو سمجھ پائے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ناقابلِ تلافی نقصان
جوسٹس میکگوون تیرہ سال کی ہیں اور وہ بھی اپنے والد کو کووڈ انیس کی وبا میں کھو چکی ہیں۔ جوسٹس کے والد مئی سن 2020 میں بیماری سے سنبھل نہیں سکے تھے۔ وہ اپنے والد کی سالگرہ کے دن سیڑھیوں میں بیٹھ کر انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک ملین افراد ہلاک ہوئے یعنی کھانے کی میز پر ایک ملین خالی کرسیاں، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’وہ وہی کرتی ہے جو والد کیا کرتے تھے‘
جوسٹس کی والدہ ڈاکٹر سینڈرا میکگووں واٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے معمولات کو سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے والد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس گھر میں اُگی جھاڑیوں کو اس نے باپ کا ٹرمر اٹھا کر کاٹا تھا۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ایک مشترکہ روایت
جوسٹس میکگوون گھر میں اوون میں سے بسکٹوں کو باہر نکال رہی ہے، ایسا وہ اپنے مرحوم باپ کے سامنے کیا کرتی تھی۔ زندگی کئی بچوں کے لیے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے لیکن وہ جذباتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ہزاروں بچوں کے والدین میں سے ایک اب زندہ نہیں
ابھی تک ان امریکی بچوں کی فلاح و بہبود کسی حکومتی پروگرام میں شامل نہیں، جن کے والدین میں سے ایک وبا کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ محققین کے مطابق امریکا میں دو لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ایسے بچے ہیں جن کے والدین میں سے ایک کووڈ انیس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
بادلوں کو چھونے جیسا
عیدان گارزا اپنے باپ کی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ان کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈیوڈ ایک سیدھے اصولوں والا انسان تھا۔ عیدان کے مطابق ڈیوڈ ایک پرجوش اور نرم دل انسان تھے اور جب بھی وہ ان کے گلے لگتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بادلوں کو چھو رہا ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’ہمارا حالات دوسروں کی طرح نہیں ہیں‘
عیدان، جولیئس اور مارگریٹ ڈیوڈ کی تصویر کی تصویر کے سامنے اکھٹے ہیں۔ یہاں وہ برتن بھی رکھا ہوا ہے، جس میں ڈیوڈ کی راکھ ہے۔ مارگریٹ اپنے شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ بھی کروا چکی ہے۔ عیدان اور جولیئس کا کہنا ہے کہ ان کا نارمل دوسرے خاندانوں جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک عزیز اس وبا میں کھو چکے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
9 تصاویر1 | 9
صحت کے بین الاقوامی ضوابط میں اصلاحات
اسی اسمبلی میں ایسے لازمی قانونی ضوابط میں اصلاحات کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا، جن کے تحت رکن ممالک صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے پرنسپل لاء آفیسر اسٹیو سالومن کے مطابق اس سلسلے میں امریکی سربراہی میں کی جانے والی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی، جن کے تحت یہ اصلاحات تیز رفتاری سے محض ایک سے دو سال کے عرصے میں نافذالعمل ہو جائیں گی۔ رکن ریاستوں میں باہمی اختلافات کے سبب چند دیگر مجوزہ تبدیلیوں پر بات چیت بعد میں کی جائے گی۔
ڈبلیو ایچ او کے اس عام اجلاس میں باقاعدہ ایجنڈے سے ہٹ کر بھی بعض امور پر بحث کی جائے گی:
کووڈ کا آغاز
ڈبلیو ایچ او نے کووڈ انیس کی وبا کا باعث بننے والےکورونا وائرس کے آغاز کے مقام کا تعین کرنے کی ذمہ داری ایک سائنسی مشاورتی پینل کو سونپی تھی۔ اس پینل نےگزشتہ برس چین میں کورونا وائرس کے ابتدائی کیسز سے متعلق تفتیش بھی کی تھی۔ تاہم اس حوالے سے چند سوالات ابھی تک حل طلب ہیں۔
کورونا کی وبا میں پھیلی اداسی سے کیسے بچا جائے
کورونا وائرس کی وبا کے سبب لگی پابندیوں اورلاک ڈاؤن نے گزشتہ ایک سال سے زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ دماغ کو سکون پہنچانے اور ذہنی دباؤ دور کرنے کے لیے چند تجاویز۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture-alliance
چہل قدمی کیجیے
قدرتی مناظر میں گھرے ہوئے مقامات ہوں یا گہرے جنگل، جھیل، ندی یا سمندر کا کنارہ ہو یا پہاڑی راستے، ایسی جگہوں پر تیز رفتار چہل قدمی یا ٹہلنا انتہائی راحت بخش اور صحت مند ہوتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق جرمن باشندے عام دنوں سے کہیں زیادہ کورونا کی وبا میں یہ کرتے دکھائی دیے۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture-alliance
آپ کے ڈرائنگ روم کی دنیا
سیاحت پر لگی پابندی نے انسانوں کو بہت بے صبر بنا دیا ہے۔ جیسے ہی سفر کرنا دوبارہ ممکن ہوا، لوگ اپنے اپنے بیگ اٹھائے ہوائی یا بحری جہازوں کا رخ کریں گے۔ کووڈ انیس کی وبا میں گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر ورچوئل طریقے سے بھی ممکن ہے۔ مفت اور محفوظ۔ بہت سی ویب سائٹس مختلف شہروں اور عجائب گھروں کے ورچوئل دورے کراتی ہیں۔ اس طرح آپ اپنے اگلے حقیقی سفر کا منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox/L. Dolgachov
متحرک رہیں
اپنی سائیکل پکڑیں اور کسی پارک میں بنے سائیکل ٹریک پر سائیکلنگ کیجیے یا پتلی پگڈنڈیوں پر۔ اگر یہ ممکن نا ہو تو اپنے ڈرائنگ روم میں یوگا میٹ بچھا کر یوگا کیجیے۔ بہت سے فٹنس ٹیچرز نے آن لائن تربیتی پروگرام اپ لوڈ کیے ہیں۔ اسمارٹ فون پر ایپس بھی موجود ہیں۔ مفت ورزش کی کلاسوں میں حصہ لیجیے۔ اس طرح کورونا وائرس کی وبا کی پھیلائی اداسی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
کسی خیالی دنیا کی سیر
کسی حیرت انگیز ایڈونچر کے دوران خود کو ایک جنگی شہسوار یا ’نائٹ‘ تصور کریں۔ ویڈیو گیمز لاک ڈاؤن کی بوریت اور مایوس کن صورتحال سے آپ کو نکالنے میں بہت مدد دیتی ہیں۔ ان گیمز کے ذریعے آپ ایک نئی دنیا تشکیل کر سکتے ہیں جس میں آپ کی ملاقات انتہائی دلچسپ کرداروں سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ پر ویڈیو گیمز کھیلنے والے دیگر شائقین سے بھی آپ کا رابطہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Square Enix
کتابی کیڑا ہی بن جائیں
کتابوں کے ڈھیر آپ کے منتظر ہیں۔ آج کل عام دنوں سے کہیں زیادہ وقت کتابوں کو پڑھنے میں صرف کیا جا سکتا ہے یا کسی پوڈکاسٹ کو سننا بھی بوریت دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ایسے ہی جیسے مختلف پزل گیمز۔ لاک ڈاؤن میں کام کے اوقات کم ہو گئے ہیں۔ دفتر آنے جانے میں صرف ہونے والا وقت بھی آپ گھر پر کتابیں پڑھتے یا آڈیو بکس سنتے ہوئے گزار سکتے ہیں۔
اپنی الماریوں اور کتابوں کی شیلفوں پر نظر ڈالیے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نے کتنے لباس الماریوں میں بے ترتیب بھرے ہوئے ہیں اور الماریوں کے خانوں میں کتنی غیر ضروری اشیاء بھری پڑی ہیں۔ جا بجا کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اوقات کا فائدہ اُٹھائیے۔ چیزوں کو ترتیب دینا، گھر کو سلیقے سے سجانا یہ سب بہت راحت بخش ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Netflix/D. Crew
کھانے پکانا
بازاری کھانوں کو وقفہ دیں۔ کھانا پکانے کی کلاسیں آن لائن بھی ہوتی ہیں، جن میں انفرادی یا اجتماعی دونوں طریقوں سے حصہ لیا جا سکتا ہے۔ نئی نئی تراکیب کا استعمال اپنی ذات میں، دوستوں یا پھر اہل خانہ کے ساتھ ذہنی دباؤ اور پریشیانیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مزے مزے کے نئے پکوان جب تیار ہو کر میز پر آئیں تو لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/MK-Photo
باغبانی ایک بہترین مشغلہ
آپ باغبانی اور شجر کاری کے ماہر ہوں یا نا ہوں، مٹی کھودنا، پودے لگانا، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کی نگہداشت کرنا اور سبزیاں اگانا، آپ اپنے لان یا بالکونی میں بھی یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی فائدہ مند مشغلہ ہے جو ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کچھ وقت مراقبے کے لیے بھی
اگر آپ کو کسی صورت ذہنی سکون نہیں ملتا، تو مراقبہ اس کا بہترین علاج ہے۔ انٹرنیٹ پر لا تعداد ویڈیوز موجود ہیں، جن کی مدد سے آپ مراقبے یا ذہنی ارتکاز فکر کے ابتدائی اسباق سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بہت سی اسمارٹ فون ایپس بھی آپ کو اس عمل کی مشق کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ایک ترجمان کے مطابق اس پینل کی تفتیشی رپورٹ کا پیش کیا جانا جلد ہی متوقع ہے۔ مگر یہ رپورٹ اس اجلاس کی کارروائی کے ایک حصے کے طور پر جاری نہیں کی جائے گی۔
ضوابط میں اصلاحات
سفارت کاروں کے مطابق صحت کے بین الاقوامی ضوابط میں اصلاحات پر بات چیت اجلاس کے بعد دوسال کے عرصے میں کی جائے گی۔ ادارے کی ایک دستاویز کے مطابق ان اصلاحات میں حساس نوعیت کی وہ امریکی تجاویز بھی شامل ہیں، جن میں سے وبا کے شروع ہونے کی جگہوں پر ماہرین کے پینل کی تعیناتی اور نئے ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک نئی کمیٹی کی تشکیل نمایاں ہیں۔ سفارت کاروں کے مطابق روس نے بھی ان ضوابط میں اصلاحات کے بارے میں اپنی تجاویز جمع کرا رکھی ہیں۔
عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ایبولا کی ہولناک وبا چمگادڑوں کی وجہ سے پھیلی ہے، جن کے جسم میں اس کا وائرس ہوتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں تک اس لیے پہنچتا ہے کہ افریقہ میں چمگادڑ کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وائرس پھیلانے والے
افریقہ میں مختلف قسموں کی چمگادڑوں، خاص طور پر فلائنگ فوکس کہلانے والی چمگادڑ کے جسم میں مختلف طرح کے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن میں ایبولا کا وائرس بھی شامل ہے۔ خود ان جانوروں کے لیے بے ضرر یہ وائرس انسانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں لوگ بڑے سائز کی چمگادڑ کو اُس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتے ہیں اور یوں یہ وائرس آسانی سے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خطرہ گھات لگائے ہوئے
جریدے ’پی ایل او ایس نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز‘ میں محققین نے کہا ہے کہ چمگادڑوں کی کئی اَقسام کے اندر یا تو ایک طویل عرصے سے یہ وائرس موجود تھا اور وہ ابھی تک اتفاق سے انسانوں تک نہیں پہنچا تھا یا پھر اس وائرس کی حامل کوئی چمگادڑ وسطی افریقہ سے اُن علاقوں تک پہنچی ہے، جہاں اب ایبولا ایک وبا کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تصویر: imago
وائرس آگے پہنچانے والے جانور
بعض دفعہ چمگادڑ مختلف طرح کے پھل کھاتے ہیں اور اُنہیں پوری طرح سے ہضم کرنے سے پہلے ہی باہر اُگل دیتے ہیں۔ جب ہرن اور دیگر جانور ان پھلوں کی نیچے گری ہوئی باقیات کو کھاتےہیں تو یہ وائرس اُنہیں بھی متاثر کرتا ہے اور وہ آگے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
تصویر: DW
محققین کا انتباہ
افریقہ میں جنگلی جانوروں کو شکار کرنا اور اُن کا گوشت کھانا ایک معمول کی بات ہے۔ ’بُش مِیٹ‘ کے طور پر ان جانوروں کا گوشت بازاروں میں کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔ محققین خبردار کر رہے ہیں کہ جنگلی جانوروں میں ایسے ایسے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن کا انسان کو ابھی اندازہ تک بھی نہیں ہے۔
تصویر: DW
وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ
ان جانوروں کے گوشت کو کاٹنے اور تیار کرنے کے عمل میں بے پناہ خطرات موجود ہیں۔ ان جانوروں کے خون یا اُن کے جسم میں موجود دیگر لیس دار مادوں کے ساتھ رابطے میں آنے کی صورت میں انسان اس طرح کے وائرس کا آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ یورپ میں بھی، جہاں چمگادڑوں میں محض چند ایک خطرناک وائرس ہی پائے گئے ہیں، ننگے ہاتھوں کے ساتھ انہیں چھُونے سے منع کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW
5 تصاویر1 | 5
عالمی وبائی معاہدہ
عام طور پر صحت کے بین الاقوامی ضوابط کو کسی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے ناکافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی سبب ڈبلیو ایچ او کے سربراہ اب ایک نیا معاہدہ چاہتے ہیں۔ نئے معاہدے میں ویکیسن شیئرنگ اور جنگلی جانوروں کی مارکیٹوں پر مکمل پابندی عائد کرنے جیسی تجاویز شامل ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں بات چیت جون میں بھی جاری رہے گی اور کوئی حتمی معاہدہ، جس کی اپنی قانونی حثیت کا تعین بھی ابھی باقی ہے، سن 2024ء سے قبل تیار نہیں ہو سکے گا۔
اشتہار
وبائی فنڈ
دنیا کے بیس ترقی یافتہ اور ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک کے گروپ جی ٹوئنی نے مستقبل میں کسی بھی قسم کی عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالر کے ایک گلوبل فنڈ کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم اس فنڈ کا قیام ڈبلیو ایچ او سے الگ اور ممکنہ طور پر عالمی بینک کی عمل داری میں ہو گا۔ اس آئندہ فنڈ میں ڈبلیو ایچ او کے کردار کا تعین ابھی نہیں ہوا اور یہ موضوع جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کی آئندہ ہفتے شروع ہونے والی اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ بھی نہیں ہے۔
ش ر / م م (روئٹرز)
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی بعض صنعتیں
چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا نے کئی صنعتی اداروں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اداروں کے لیے یہ وبا منفعت کا باعث بنی ہے اور کئی ایک کو مسائل کا سامنا ہے۔ بعض اس وائرس کو عالمی طلب میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: VLADIMIR MARKOV via REUTERS
جرمن چانسلر ووہان میں
سن 2019 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ووہان میں ویباسٹو فیکٹری کے بڑے پلانٹ کے دورہ کیا تھا۔ اب یہ کارخانہ بند ہے۔ جرمن ادارے زیمینز کے مطابق اس وبا کے دوران ایکس رے مشینوں کی طلب زیادہ ہونے کا امکان کم ہے اور فوری طور پر کم مدتی کاروباری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
صفائی ستھرائی اور صفائی ستھرائی
کورونا وائرس کی وبا سے کیمیکل فیکٹریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ڈس انفیکشن سیال مادے کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جراثیم کش پلانٹس کو زیادہ سپلائی کے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی سپلائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
دوکانیں اور ریسٹورانٹس
ووہان میں کے ایف سی اور پیزا ہٹ کے دروازے گاہکوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ سویڈن کے کپڑوں کے اسٹور ایچ اینڈ ایم کی چین بھر میں پینتالیس شاخیں بند کر دی گئی ہیں۔ جینر بنانے لیوائی کے نصف اسٹورز بند کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے بڑے اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ آن لائن بزنس سے ان کو کسی مالی نقصان کا سامنا نہں ہے۔
تصویر: picture-alliancedpa/imaginechina/Y. Xuan
ایڈیڈاس اور نائیکی
کھیلوں کا سامان بنانے والے امریکی ادارے نائیکی کی طرح اُس کے جرمن حریف ایڈیڈاس نے بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اپنے بیشتر اسٹور بند کر دیے ہیں۔ مختلف دوسرے اسٹورز بھی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے ان اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت خیال کیا جا رہا ہے۔ اشتہاری کاروباری سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Imaginechina
کارساز اداروں کی پریشانی
اس وائرس کی وبا سے چین میں غیرملکی کار ساز اداروں کی پروڈکشن کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مختلف کار ساز ادارے اپنی فیکٹریوں کو اگلے ہفتے کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی چین میں تینتیس فیکٹریاں ہیں اور ادارہ انہیں پیر دس فروری کو کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گاڑیوں کی پروڈکشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
تصویر: Imago Images/Xinhua
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
مرسیڈیز بنانے والے ادارے ڈائملر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پیر سے اپنی فیکٹری کھول دیں گے۔ فیکٹری کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ کارخانے کے ورکرز گھروں سے نکل بھی سکیں گے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی انسانی جان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کئی گاڑیوں کو فروخت کرنے والے اداروں کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ہونڈا کی احتیاط
جاپانی کار ساز ادارے ہونڈا کے فاضل پرزے بنانے والی تین فیکٹریاں ووہان شہر میں ہیں۔ یہ چینی قمری سال کے آغاز سے بند ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ تیرہ فروری تک بند رہیں گے۔ ایک ترجمان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ہونڈا کی پروڈکشن شروع ہو سکے گی کیونکہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اضافی سپلائی روانہ کرنے کا امکان نہیں
کورونا وائرس سے بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں کا پیدا ہونا یقینی خیال کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال بہت گھمبیر ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی مثال کار انڈسٹری ہے۔ جنوبی کوریائی کار ساز ادارے ہنڈائی نے تو اپنے ملک میں پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چین سے اضافی پرزوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ساری دنیا میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Reuters/Aly Song
چینی لوگ بھی محتاط ہو کر دوری اختیار کر رہے ہیں
کورونا وائرس کے اثرات جرمن فیسٹیول پر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے چینی شہری وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں اور اس باعث شرکت سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ فرینکفرٹ میں صارفین کے سامان کے بین الاقوامی فیسٹیول ایمبینٹے میں کم چینی افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ لفتھانزا سمیت کئی دوسری فضائی کمپنیوں نے وائرس کی وجہ سے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
تصویر: Dagmara Jakubczak
جرمنی میں وائرس سے بچاؤ کی تیاری
فرینکفرٹ میں شروع ہونے والے فیسٹیول میں شرکا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قرنطینہ یا کوارنٹائن تیار کی گئی ہے تا کہ کسی بھی مہمان میں اس کی موجودگی کی فوری تشخیص کی جا سکے۔ ووہان سے جرمنی کے لیے کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کے لیے زیادہ تر پروازیں بیجنگ اور ہانگ کانگ سے اڑان بھرتی ہیں۔