عالمی اپیلیں نظرانداز، ایرانی پہلوان کو پھانسی دے دی گئی
12 ستمبر 2020
ایرانی حکام نے ایک نوجوان پہلوان نوید افکاری کو قتل کے الزام میں دی گئی سزائے موت پر عمل کر دیا ہے۔ افکاری ریسلنگ کھیل کے قومی چیمپیئن تھے۔
اشتہار
ہفتہ بارہ ستمبر کو پھانسی پانے والے نوجوان نوید افکاری کی عمر ستائیس برس تھی۔ ان پر سن 2018 کے حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی گارڈ کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اسی الزام کے تحت ایک ایرانی عدالت نے ان کے بھائیوں وحید افکاری کو چون برس اور حبیب افکاری کو ستائیس سال کی قید سزا سنائی ہے۔ ایرانی حکومتی میڈیا کے مطابق نوید افکاری کو جنوبی شہر شیراز میں پھانسی دی گئی۔
ایرانی پولیس کا موقف
عدالت میں ایرانی پولیس نے واضح کیا کہ نوید افکاری کا مقتول سکیورٹی گارڈ کے ساتھ ذاتی تنازعہ تھا اور اسی بنیاد پر مظاہروں کے دوران اسے ہلاک کیا گیا۔
ایرانی میڈیا پر نوید افکاری کا اعترافی بیان گزشتہ ہفتے نشر کیا گیا تھا۔ افکاری کے وکیل نے پولیس کی تفتیشی نتائج اور بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔
افکاری برادران پر تشدد کے الزامات
اس سزا کے حوالے سے جیل سے باہر بیجے گئے ایک آڈیو میسج میں موت کی سزا پانے والے افکاری نے بتایا کہ اُن کا اعترافی بیان شدید ٹارچر کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ ایرانی حکام نے تشدد کے الزامات کی نفی کی ہے۔
سزا پانے والے تین بھائیوں کی والدہ کا کہنا ہے کے ان کے بیٹوں کو انتہائی زیادہ تشدد کا نشانہ بنا کر ایک دوسرے کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔
افکاری برادران کے وکیل حسن یونسی کے مطابق ایرانی نیوز رپورٹیں دھندلے شواہد پر مرتب کی گئی تھیں لیکن حقیقت میں سکیورٹی گارڈ کے ہلاک ہونے کے وقت کی کوئی مصدقہ ویڈیو دستیاب نہیں ہے۔
یونسی کے مطابق جو غیر واضح ویڈیو ثبوت کے طور پر استعمال کی گئی ہے، وہ گارڈ کے مرنے سے ایک گھنٹے قبل کی تھی۔
نویدافکاری کی سزائے موت معاف کرنے کی اپیلیں
ایرانی حکومت سے نوید افکاری کو دی گئی سزائے موت معاف کرنے کی اپیل کرنے والوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل تھے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افکاری کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ ایتھلیٹوں کی عالمی یونین نے دنیا کے پچاسی ہزار ایتھلیٹس کے دستخطوں سے سزا معافی کی درخواست کی تھی لیکن اسے بھی تہران حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) نے نوید افکاری کی سزا پر عمل درآمد کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ اس بیان میں افکاری خاندان اور ان کے دوست احباب سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ایرانی حکام نے دنیا بھر کی ایتھلیٹوں کی سزا معاف کرنے کی درخواستوں کو بھی نظر انداز کر دیا۔
ایرانی فلم ساز: سینسرشپ کے باوجود کامیاب
ایران میں فلمسازوں کو اپنے ملک میں ہدایت کاری سمیت کئی طرح کی سخت ریاستی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن وہ ان پابندیوں کا مقابلہ اپنے تخلیقی فن کے ساتھ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Mahe
محمد رسولوف
کَن فلمی میلے 2017ء میں فلم A Man of Integrity کے لیے اہم ایوارڈ جیتنے کے بعد ہیمبرگ میں مقیم محمد رسولوف واپس ایران لوٹ گئے۔ ایرانی حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور ان کی طرف سے فلم سازی پر پابندی عائد کر دی۔ گزشتہ برس ان کو ایک سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی نئی فلم There Is No Evil کی شوٹنگ میں کامیاب ہوگئے۔ اس فلم کو برلینالے فلم فیسٹیول کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Cosmopol
عبدالرضا کاهانی
اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنی تین فلموں پر پابندی کے بعد فلم ساز عبدالرضا کاھانی سن 2015 میں فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ کاھانی نے ’سینٹر فار ہیومن رائٹس اِن ایران‘ نامی تنظیم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سینسرشپ میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ ادب، موسیقی اور فلموں کو متاثر کر رہی ہے۔ سینسرشپ کا آغاز گھر کے اندر سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/A. I. Bänsch
کیانوش عیاری
کیانوش عیاری کی فلم The Paternal House سن 2012 میں تیار کی گئی تھی۔ تاہم ایران میں اس فلم کو گزشتہ برس بعض تبدیلیوں پر رضامندی کے بعد ہی ریلیز کیا گیا تھا۔ لیکن ایک ہی ہفتے بعد یہ فلم پابندی کی نذر ہو گئی تھی۔ اس پر اپنے رد عمل میں 200 سے زائد فلمی شخصیات نے اپنے ایک کھلے خط میں ایران میں ریاستی سینسرشپ کی مذمت کی تھی اور آزادی اظہار رائے کا مطالبہ کیا تھا۔
تصویر: Iranian Film Festival
اصغر فرہادی
ایرانی فلم ساز اصغر فرہادی 2012ء اور 2016ء میں ’غیر ملکی زبان میں بہترین فلم‘ کے لیے آسکر ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ تاہم فرہادی نے آسکر کی دوسری اعزازی تقریب میں احتجاجاﹰ شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ تب صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر امریکا کے سفر کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اصغر فرہادی سن 2019 میں ایران میں ریاستی سینسرشپ کے خلاف مہم میں بھی پیش پیش رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Cannes Film Festival
بهمن قبادی
ایرانی کرد فلم ساز بهمن قبادی نے 2000ء میں A Time for Drunken Horses کے نام سے کرد زبان کی سب سے پہلی فلم بنائی تھی۔ 2009ء میں قبادی نے تہران کے انڈرگراؤنڈ اِنڈی میوزک پر نیم دستاویزی فلم No One Knows About Persian Cats بنائی تھی۔ یہ دونوں فلمیں کَن فلمی میلے میں ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ تاہم ایرانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے دھمکیوں کے باعث قبادی ایران سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔
تصویر: Filmfest München 2016
مرجان ساتراپی
نوعمری میں ایران سے نقل مکانی کر جانے کی وجہ سے فلم ساز اور مصنفہ مرجان ساتراپی کا ایرانی حکام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا۔ ساتراپی کے مزاحیہ خاکوں پر مبنی مشہور ناول Persepolis کو فلمایا بھی گیا تھا۔ یہ ایک ایرانی لڑکی کی کہانی تھی اور ایرانی معاشرے پر گہرا طنز بھی تھا۔ اس فلم نے سن 2007 کے کَن فلمی میلے میں جیوری پرائز جیتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Prokino Filmverleih
محسن مخملباف
امریکا میں نائن الیون کے حملوں سے قبل ریلیز ہونے والی محسن مخملباف کی فلم ’قندھار‘ افغان خواتین کو درپیش حالات کے بارے میں ایک اہم فلم سمجھی جاتی ہے۔ ہدایتکار مخملباف کی متعدد ایوارڈ یافتہ فلموں پر ایران میں پابندی ہے۔ سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے انتخاب کے بعد وہ ملک چھوڑ کر فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ ان کی حالیہ فیچر فلم The President (تصویر) کے ساتھ وینس فلم فیسٹیول 2014 ء کا افتتاح ہوا تھا۔
تصویر: FILMFEST MÜNCHEN/20 Steps Production
سمیرا مخملباف
محسن مخملباف کی بیٹی سمیرا مخملباف کا شمار ایران میں نئی نسل کے بااثر ہدایتکاروں میں ہوتا ہے۔ سمیرا نے سترہ برس کی عمر میں فلم The Apple کے لیے ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے تھے۔ سن 2000 میں ان کی فلم Blackboard کے لیے انہیں کن میلے کے جیوری پرائز سے نوازا گیا تھا۔ سمیرا مخملباف کَن، وینس اور برلن جیسے بین الاقوامی فلمی میلوں کی جیوریز کی سب سے کم عمر رکن بھی رہ چکی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans AF Archive Artificial Eye
جعفر پناہی
پابندیوں کے شکار ایرانی فلم ساز جعفر پناہی کی فلم ’ٹیکسی‘ کو برلینالے 2015ء میں ’گولڈن بیئر‘ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ جعفر پناہی پر سن 2010 سے فلم سازی اور ایران سے باہر سفر کرنے پر پابندی ہے۔ تمام تر بندشوں کے باوجود وہ خفیہ طور پر فلموں کی ہدایت کاری کرتے ہیں۔
تصویر: J. Panahi
شیریں نشاط
ملالہ یوسفزئی کی شاندار تصویر بنانے والی ایرانی مصورہ شیریں نشاط خودساختہ جلاوطنی کے بعد نیو یارک میں رہائش پذیر ہے۔ شیریں ایران میں خواتین پر تشدد، سینسرشپ اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔ شیریں کی فیچر فلم Women Without Men کو وینس فلم فیسٹیول 2009ء میں ایک ایوارڈ بھی ملا تھا۔