1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں میزائلوں کی ذخیرہ گاہ پر بڑے اسرائیلی فضائی حملے

16 دسمبر 2024

برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسرائیل نے پیر کی صبح شام میں میزائلوں کی ایک ذخیرہ گاہ پر فضائی حملے کیے، جنہیں 2012ء سے اب تک کے ’’انتہائی شدید حملے‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

ان اسرائیلی حملوں کو  2012 ء سے اب تک ’کے ’شدید ترین‘‘ حملے کہا جا رہا ہے
شام میں میزائلوں کی ذخیرہ گاہ پر شدید ترین فضائی حملےتصویر: Muhammed Said/AA/picture alliance

شام کے خونریز تنازعے پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے پیر سولہ دسمبر کے روز کہا کہ اسرائیل نے شام میں میزائلوں کے ایک گودام پر فضائی حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی شدت کے تناظر میں انہیں 2012 ء سے اب تک ''شدید ترین‘‘ حملے قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر بشار الاسد کے اقتدار کے ڈرامائی خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے شام کے مختلف فوجی مقامات پر گولا باری اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد شام کے فضائی دفاع اور سابق شامی فوج کے زیادہ تر ہتھیاروں اور گوداموں کا صفایا کرنا ہے۔

اسرائیل کا گولان کی پہاڑیوں پر آبادی دوگنا کرنے کا منصوبہ

جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی

شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے ایک سرحدی بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے تاہم اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی چنگاری پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ناقدین اسرائیل پر 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر زمین پر قبضے کے لیے شام میں پھیلی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

شام کے باغی جنگجوؤ کی تنظیم HTS کون ہے؟

01:45

This browser does not support the video element.

یہ افراتفری اس وقت سے شام میں نظر آرہی ہے، جب سابق شامی صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں ایک ہفتہ قبل اسد خاندان کی نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ شام کی موجودہ صورتحال نے علاقائی عدم استحکام کے خدشات کو نئے سرے سے جنم دیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اور لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے دیرپا خاتمے کے وہاں فائر بندی معاہدے کے باوجود کوئی واضح آثار نظر نہیں آ رہے۔

اسرائیلی فورسز گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے علاقے میں تصویر: Mati Milstein/NurPhoto/picture alliance

گولان کے پہاڑی سلسلے میں اسرائیلی دراندازی

بشارالاسد کا تختہ الٹنے والے سابق باغیوں نے دمشق میں انتظامیہ کی قیادت سنبھال لی ہے تاہم یہی باغی اور شام کی نئی انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے گولان کی پہاڑیوں کے شامی علاقے میں اسرائیلی بمباری اور دراندازی  کی شکایت بھی کی ہے۔ ساتھ ہی باغیوں کی انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم یا محاذ آرائی نہیں چاہتی۔

گولان پہاڑیوں میں شام سے متصل سرحد پراسرائیلی فوج کا حملہ

ترکی کا رد عمل

دریں اثنا ترکی نے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے علاقے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کی ہے۔ انقرہ سے موصولہ تازہ خبروں کے مطابق  ترک وزارت خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا، ''یہ فیصلہ اسرائیل کے مقاصد کی توسیع یعنی قبضے کے ذریعے اپنی سرحدوں کو پھیلانے  کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ انقرہ کو اس امر پر گہری تشویش ہے کیونکہ ''اس اقدام سے پورے خطے میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

ترک صدر ایردوآن شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو تیار

ترک وزارت خارجہ نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا، ''عالمی برادری کو ضروری ردعمل ظاہر کرنا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل اور وزیر اعظم  بینجمن نیتن یاہو کی حکومت  کی غیر قانونی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو۔‘‘

قطر نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ''شامی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت کا جاری سلسلہ اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔‘‘

گولان کی پہاڑیوں کے شامی علاقے میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمیتصویر: Mostafa Alkharouf/Anadolu/picture alliance

امریکی باشندوں کو شام سے نکل جانے کا مشورہ

دمشق میں قائم امریکی سفارت خانے نے امریکی باشندوں کو شام سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''شام میں سلامتی کی صورت حال بدستور تشویش ناک اور غیر متوقع  ہے۔ مسلح تصادم اور دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‘‘

دمشق میں امریکی سفارت خانے نے، جو 2012 ء سے بند ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں لکھا کہ تمام امریکی شہری شام سے رخصت ہو جائیں اور جو ملک چھوڑنے کے قابل نہیں، ان کو ''ہنگامی حالات کے لیے ہنگامی منصوبے‘‘ تیار کرنا چاہییں۔

گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقے میں ’ٹرمپ ہائٹس‘ کی تعمیر شروع

حلب میں روسی اور شامی طیاروں کے باغیوں پر حملے

02:38

This browser does not support the video element.

امریکی سفارت خانے کےاس بیان میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن یہ کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت ایسے امریکی شہریوں کو، جنہیں شام سے نکلنے کے لیے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، کو معمول کی یا ہنگامی قونصلر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم امریکی شہری شام سے نکل کر جس ملک میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں وہاں قائم امریکی سفارت خانے سے رابطہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ دہشت گرد گروپ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے بظاہر غیر فعال یا 'سلیپر سیلز‘ نے شام کے مختلف حصوں میں گزشتہ مہینوں کے دوران ہونے والے کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مارچ 2019 ء میں اپنی شکست کے باوجود 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہا پسند جنگ زدہ ملک شام کے لیے ہنوز خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

ک م/ ع ت، م م (اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں