دنیا ایران کے خلاف ’فیصلہ کن موقف‘ اختیار کرے: شاہ سلمان
12 نومبر 2020
سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران کے نیوکلیائی اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے پروگراموں کو روکنے کے لیے عالمی برادری سے تہران کے خلاف ’فیصلہ کن موقف‘ اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے اعلی ترین مشاورتی ادارے، مجلس شوری، کے سالانہ اجلاس سے جمعرات کے روز خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے اس کے منصوبوں کو روکنے کے لیے 'فیصلہ کن موقف‘ اختیار کرنا ضروری ہے۔
شاہ سلمان نے کہا کہ ”ایرانی نظام خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ایران کی طرف سے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ تہران دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے، انتہا پسندی کو فروغ دینے اور مسلکی فسادات کو ہوا دینے کی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔"
ایران پر نکتہ چینی
ایران کے کٹر حریف سعودی عرب کے 84 سالہ شاہ سلمان نے کہا کہ”ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو موثر اور فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ عالمی برادری ایران کے وسیع پیمانے پر تیار کردہ ہتھیاروں، اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام، خطے میں ایرانی مداخلت، دہشت گردی کی پشت پناہی اور عالمی امن کو تباہ کرنے کی سازشوں کا نوٹس لے۔"
گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کے بعد شاہ سلمان کی یہ پہلی عوامی تقریر تھی۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے ایران پر نکتہ چینی کی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
سعودی فرماں روا کا مزید کہنا تھا کہ عرب خطہ اس وقت کئی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ایران خطے میں اپنا سیاسی اور نظریاتی ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔ بد قسمتی سے خطے کے بعض ممالک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کی بے جا حمایت اور پڑوسی ہونے کے اصولوں کو پامال کر رہے ہیں۔
اشتہار
الزامات 'بے بنیاد‘
سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ان بیانات کے سلسلے میں ایران کی طرف سے ابھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران تاہم ماضی میں سعودی عرب کے ان الزامات کو 'بے بنیاد‘ قرار دیتا رہا ہے۔ تہران مشرق وسطی میں مسلح جدوجہد کرنے والے گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے بھی انکار کرتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے خود کو 2018 میں الگ کرلینے اور اسلامی جمہوریہ پر سخت اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کردینے کے بعد سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہواہے۔
شاہ سلمان نے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے ذریعہ سعودی عرب کے اندر ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے شہریوں کو نشانہ بنانے کے'قصداً اور عملاً‘ اقدامات کی بھی مذمت کی۔
اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کا ذکر نہیں
کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے شاہ سلمان نے کہا کہ کووڈ۔19کے اثرات کے باوجود سعودی عرب تیل کی عالمی سپلائی کو مستحکم رکھنے کے لیے کام کررہا ہے۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی تلوار رقص
00:44
شاہ سلمان نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے منصفانہ حل پر بھی زور دیا اور کہا کہ اس معاملے پر سعودی عرب کے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے تاہم امریکا کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کے سلسلے میں ہونے والے معاہدوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
شاہ سلمان کی یہ تقریر ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چند دنوں بعد ہی سعودی عرب جی۔20 چوٹی کانفرنس کی میزبانی کرنے والا ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے شاہ سلمان کی تقریر کا مکمل متن آدھی رات کے بعد جاری کیا۔ سرکاری ٹیلی ویزن میں ان کی جو تصویریں دکھائی گئیں ان میں وہ نیوم میں اپنے محل سے مجلس شوری کے اراکین سے ورچوئلی تقریر کرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ گزشتہ موسم گرما میں خرابی صحت کی وجہ سے انہیں کئی دنوں تک ہسپتال میں رہنا پڑا تھا، جہاں ان کے مثانے کی سرجری ہوئی تھی۔
ج ا /ص ز (روئٹرز)
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔