1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے ایک آرچ بشپ کی بین الاقوامی پابندیوں پر شدید تنقید

7 جون 2021

شام کے الموارنہ کلیسا کے ایک آرچ بشپ نے اپنے ملک کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ملک کو مفلوج کرنے اور عوام کو مزید غربت میں دھکیلنے کا سبب قرار دیا ہے۔

Maronitischer Erzbischof Damaskus I Samir Nassar,
تصویر: Bob Edme/AP/picture alliance

 

شامی مسیحیوں کے اس فرقے کے زیادہ تر افراد لبنان میں آباد ہیں۔ اسے فرقے کو الموارنہ یا میرونائٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شامی دارالحکومت دمشق کے اس مسیحی فرقے سے تعلق رکھنے والے سینیئر پادری سمیر نصیر نے اپنے ملک پر لگی بین الاقوامی پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا،'' یہ شام کو مفلوج کر دیں گی اور شامی باشندوں کو غربت کے دلدل میں دھکیل دیں گی۔‘‘  سمیر نصیر کا یہ بیان پیر کو جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ میں ایک کیتھولک امدادی تنظیم 'کِرشے ام نوٹ‘ نے شائع کیا۔ سمیر نصیر کے بقول،'' ایسے قوانین جو ان ممالک اور افراد کو سزا دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں،  شام کے جنگ سے تباہ حال شہریوں کے لیے امداد پہنچانے کی جرات و جسارت کرتے ہیں، انسانی امداد کے اس اہم کام کی راہ میں مزید رکاوٹ پیدا کرنے اور نہتے انسانوں کو مزید بدحال کرنے کا سبب ہیں۔‘‘

دس سالہ شامی خانہ جنگی میں ہلاکتوں کی تعداد اب نصف ملین

 

شام کی امداد کرنے والے ممالک اور تنظیموں پر پابندیوں سے شام کے چند قریبی دوست ممالک پر بھی گہرے منفی اثرات رونما ہوئے ہیں۔ شام کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار ملک لبنان ہے۔ شام پر بین الاقوامی پابندیوں کا منفی نتیجہ اس ملک پر بھی پڑ رہا ہے۔ لبنان میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔

حلب میں رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کی اشیا کی تقسیم۔تصویر: AFP/Getty Images

 

شامی دارالحکومت دمشق میں میرونائٹ مسیحی عقیدے کے مرکزی گرجا گھر کے آرچ بشپ سمیر نصیر نے اس صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے چند مثالیں بھی دیں۔ انہوں نے بتایا کہ شام میں جنگ شروع ہونے سے پہلے دو کلوگرام روٹی کی قیمت 15 شامی پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی اور اب ایک کلو روٹی کے لیے 100 تا 500 شامی پاؤنڈ ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔

جرمنی کا خانہ جنگی سے دو چار شام کے لیے مزید امداد کا وعدہ

 

 آرچ بشپ نے عالمی برادری سے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا۔ معاشی بحران غربت میں مزید اضافے کا سبب بنا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ شام میں دس سالوں سے جاری جنگ کے سنگین اثرات سے کبھی بھی باہر نہیں نکل پائیں گے۔

داعش کا شکار بچے، جنہیں دنیا نے بھُلا دیا

جرمن کیتھولک امدادی تنظیم 'کِرشے ام نوٹ‘ کے اپنے بیانات کے مطابق 2011 ء سے جاری شام کی جنگ میں اب تک یہ تنظیم ایک ہزار امدادی پروجیکٹس کی مالی اعانت کر چُکی ہے اور ان امدادی کاموں پر 42 ملین یورو کے اخراجات آئے ہیں۔ دیگر اشیائے ضرورت کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا کے پارسل، ادویات کی شکل میں امداد وغیرہ ان امدادی پروجیکٹس کا حصے ہیں۔

بھوک سے دم توڑتے ہوئے بچے عبدو کی ماں کی فریاد۔ تصویر: DW

 

خاص طور سے نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ اور ضروری ادویات وغیرہ کا بندو بست کیا گیا۔ ساتھ ہی شام میں متعدد کلیساؤں کی عمارتوں کی تعمیرنو، پادریوں اور دیگر مذہبی طبقوں کی مالی معاونت، ان کی رہائش گاہوں اور چرچ کو بجلی کی سہولت کے لیے سبسڈی وغیرہ کے اخراجات بھی جرمن کیتھولک امدادی تنظیم 'کِرشے ام نوٹ‘ نے اُٹھائے۔ یہ تنظیم ملک کے مختلف کیتھولک اور آرتھوڈوکس چرچ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور متعدد جگہوں پر انتہائی ضرورتمند افراد پر مشتمل آبادی کے لیے ایک مرکزی رابطہ کار تنظیم کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔

شامی جنگ: لاکھوں بچے متاثر لیکن حل کوئی نہيں

یاد رہے کہ شامی جنگ کی ہلاکت خیزی پر نگاہ رکھنے والی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق کچھ عرصہ پہلے تک خانہ جنگی میں انسانی ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار بہت کم تھے۔ اب لیکن اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد اضافی ہلاکتوں کی حالیہ تصدیق کے بعد اموات کی مجموعی مصدقہ تعداد چار لاکھ چورانوے ہزار چار سو اڑتیس ہو گئی ہے۔

 

ک م/ ع ح ) کے این اے(

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں