عالمی جنگ کے پولستانی متاثرین سے معافی مانگتا ہوں، جرمن صدر
1 ستمبر 2019
دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت آج اتوار کو دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے 80 برس پورے ہونے پر پولینڈ میں جمع ہیں۔ اس تقریب میں امریکی نائب صدر مائیک پینس اور جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر بھی شریک ہیں۔
اشتہار
دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے حوالے سے پہلی تقریب آج اتوار کی صبح پولینڈ کے شہر 'ویلون‘ میں منعقد ہوئی۔ اس شہر پرجرمن نازی دستوں نے یکم ستمبر 1939ء کو سب سے پہلے بمباری کی تھی۔ اس موقع پر جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ کے متاثرین سے معافی کی درخواست کی، '' ویلون پر حملہ ان تمام واقعات کا ایک طرح سے انتباہ تھا، جو اگلے چھ سالوں میں رونما ہونے تھے۔‘‘
شٹائن مائر نے مزید کہا، ''میں نازی جرمنوں کی جانب سے ویلون پر حملے کے متاثرین کے سامنے سر تسلیم خم ہوں۔ یہاں سے وہ تشدد اور تباہی شروع ہوئی تھی، جو اگلے چھ برسوں تک پولینڈ اور یورپ بھر میں پھیلی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''جرمنی اُن تمام واقعات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، جو ہمیں تاریخ سے ورثے میں ملے ہیں۔ ہم یہ کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘
ویلون میں آج اتوار کی صبح دنیا بھر سے آئے ہوئے اور مقامی شہریوں نے بمباری میں ہلاک ہونے والے تقریباً دو ہزار افراد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ان میں اس بمباری میں بچ جانے والے افراد بھی شریک تھے۔
اس تقریب کے کچھ دیر بعد پولش وزیراعظم ماتیئوش موراویئسکی اور یورپی کمیشن کے نائب سربراہ فرنز ٹمرزمن نے بحیرہ بالٹک پر جزیرہ نما ویسٹر پلیٹ پر ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پولش دستوں نے اپنی مزاحمت شروع کی تھی۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
6 تصاویر1 | 6
لڑائی کے دوران پولینڈ کے کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس دوران تقریباً اس ملک کی تقریباً بیس فیصد آبادی ختم ہو گئی تھی، جس میں اس ملک میں آباد تین ملین یہودی شہری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد تقریباً چھ برسوں تک یعنی 1945ء تک نازی جرمن حکومت پولینڈ پر قابض رہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے بعد پولینڈ ایک طرح سے کھنڈر بن چکا تھا۔ تاہم یہ ملک جلد ہی اس صورتحال سے نکل گیا اور 1989ء تک پولینڈ سابقہ سوویت یونین کے زیر اثر تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے اسی برس پورے ہونے کی مرکزی تقریب پولش دارلحکومت وارسا میں آج ہی منعقد ہو رہی ہے، جس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی وزیر اعظم ایدوآر فیلیپ، بیلجیم کے وزیر اعظم اور یورپی کونسل کے نو منتخب صدر شارل مشیل کے ساتھ ساتھ کروشیا، چیک ریپبلک، لتھوانیا، سلوواکیہ، یوکرائن اور ہنگری کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں آج بھی جرمنی کے مختلف حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ نشان امن کے فروغ کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ جنگ کی آگ سے نہ کھیلیں۔
تصویر: DW/Holm Weber
برلن کا چرچ
اس بات پر یقین مشکل لگتا ہے کہ 1945ء میں جرمن شہروں پر بھی اتنی شدت سے بمباری کی گئی جیسی بعض عراقی اور شامی شہروں میں۔ تباہ ہونے والی عمارتوں میں سے بعض کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا تاکہ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کی یاد گار کے طور پر موجود رہیں۔ انہی میں برلن کا یہ ولہیلم میموریل چرچ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
پانچ میناروں والی خوبصورت عمارت
رومن طرز تعمیر کے حامل ولہیلم میموریل چرچ کی تعمیر 1895ء میں مکمل ہوئی۔ اتحادی طیاروں نے اس پر 23 نومبر 1943ء کو اسے بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس چرچ کے 71 میٹر طویل ٹاور کا ملبے کو میموریل آف وار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
تباہی کی یاد گار
برلن کے فرانسسکن موناسٹری چرچ کی تاریخ 1250ء تک جاتی ہے۔ تین اپریل 1945ء کو اس چرچ کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس چرچ کی تعمیر نو تو کر دی گئی مگر بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے ملبے کو یاد دگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: gemeinfrei/imago/F. Berger
رائن کنارے کا چرچ
کولون کے وسط میں موجود سینٹ البان کا چرچ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بنا۔ اس تصویر میں اس چرچ کے تباہ شدہ کوائر کو دکھایا گیا ہے۔ بغیر چھت کے اس چرچ کو اب جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: CC BY-SA 3.0/Raimond Spekking
بچی کھچی روایات
سینٹ البان سے کچھ ہی فاصلے پر موجود سینٹ کولمبا کا چرچ موجود ہے۔ یہ کولون شہر کے قدیم ترین چرچوں میں سے ایک ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 980ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ چرچ بھی 1943ء میں بمباری کے نتیجے میں تقریباﹰ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
امید کی ایک اور کرن
اپریل 1945ء میں زیربسٹ محل پر بم برسائے گئے اور یہ جل کر تباہ ہو گیا۔ بیش قیمت اندرونی نقش ونگار تباہ ہو گیا۔ صرف اس کا مشرقی حصہ تباہی سے بچ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ہیمبرگ کا ’گومورا‘
ہیمبرگ کا یہ چرچ بھی بمباری کا نشانہ بنا۔ جنگ کے بعد ہیمبرگ کی سینیٹ نے اس کی تعمیر نو نہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ سینٹ نکولاس چرچ کے باقیات کو 1933ء اور 1945ء کے درمیان جنگ کا شکار ہونے والوں کے نام کر دیا گیا۔ اس چرچ کے تہہ خانے میں ایک میوزیم قائم کر دیا گیا ہے جس میں جنگ کے بارے میں تفصیلات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تباہی ایک نئی ابتداء
1945ء میں ڈریسڈن کا ’فراؤون کرشے‘ یا خواتین کا بمباری کا نشانہ بنا مگر یہ مکمل تباہی سے دوچار ہونے سے بچ گیا۔ تاہم بعد میں آگ بھڑک اٹھنے سے اس کا پتھر سے بنا بڑا گنبد گِر گیا۔ اس کا ملبہ اس کے بعد سے جنگ اور تباہی کے خلاف ایک یادگار کے طور پر موجود ہے۔
تصویر: Hulton Archive/AFP/Getty Images
نئی امید
جرمنی کے اتحاد کے بعد 1996ء میں اس کی بحالی کا کام شروع ہوا جو نو برس پر محیط تھا۔ پرانی عمارت کے پتھر نئی تعمیر میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر نو پر 180 ملین کا یورو کا خرچ ہوا جس کے لیے ملک اور ملک سے باہر 16 مختلف اداروں نے فنڈز فراہم کیے۔