1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

عالمی جوہری صنعت کے نشیب و فراز

11 اپریل 2023

آئی اے ای اے کی پیش گوئی کے مطابق سن 2050 تک عالمی جوہری تنصیبات کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔ یوکرین کے خلاف روسی جنگ نے دنیا بھر کے ممالک میں توانائی کے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔

Deutschland | Kernkraftwerk Neckarwestheim
تصویر: Michael Probst/AP Photo/picture alliance

ایک طرف جرمنی اپنے آخری دو جوہری ری ایکٹرز اچھے طریقے سے بند کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو دوسری جانب بعض ممالک توانائی کے حصول میں خودکفیل ہونے اور ماحول دشمن ایندھن کے اخراج میں کمی کی خاطر جوہری توانائی کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔

2011ء میں جاپان کے فوکوشیما جوہری ری ایکٹر کی تباہی کا ایک منظرتصویر: Digital Globe/abaca/picture alliance

اس آرٹیکل میں اس متنازعہ صنعت کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ کچھ تجزیات کے مطابق اس صنعت میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس کا طویل المدتی مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔

انٹرننیشنل انرجی ایجنسی (آئی اے ای ) کے مطابق جرمنی کو نکال کر فی الحال اکتیس ممالک میں جوہری توانائی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بجلی کا تقریباً دس فیصد جوہری توانائی پر مشتمل ہے۔

2011ء میں جاپان کے فوکوشیما جوہری ری ایکٹر کی تباہی کے نتیجے میں اس صنعت کو شدید دھچکا لگا تھا اور بہت سے ری ایکٹرز حفاظتی خدشات کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔

غیر یقینی مستقبل

چین نے اپنے ایک بڑے ری ایکٹر کی تعمیر کے منصوبے پر عمل درآمد سست کر دیا ہے جبکہ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ نے جوہری توانائی کا حصول مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹلی نے 1987ء میں یوکرین کے چرنوبل پاور پلانٹ میں ہونے والے دھماکے کے تناظر میں پہلے ہی جوہری توانائی کا منصوبہ ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چرنوبل حادثہ تاریخ کی بدترین جوہری تباہی تھی۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق دنیا بھر میں جوہری صنعت 2002ء میں441 آپریٹنگ ری ایکٹرز کے مقابلے میں 2022ء کے آخر تک کم ہو کر 422 تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی سطح پر جوہری توانائی کی پیداوار سن دوہزار اکیس میں  واپس عروج پر پہنچ گئی تھی لیکن اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

موجودہ جوہری پلانٹس کی عمر بڑھ رہی ہے اور دنیا بھر میں ہر سال شروع کیے جانے والے نئے منصوبوں کی تعداد 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ 1976ء میں چوالیس کے مقابلے میں 2022ء میں دس نئے جوہری توانائی کے منصوبے شروع ہوئے۔ روس کے یوکرین پر حملے اور یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ژاپوریژیا پلانٹ پر قبضے کے بعد سے کچھ حلقوں میں جوہری حفاظت کے حوالے سے خدشات ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن صاف توانائی کے ایک ریعے کے طور پر جوہری توانائی کے حق میں ہینتصویر: Patrick Semansky/AP/picture alliance

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقت

امریکہ بانوے جوہری ری ایکٹرز کے ساتھ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی سول نیوکلیئر طاقت ہے۔ لیکن یہ ری ایکٹرز بہت زیادہ پرانے ہیں اور ان کی اوسط عمر بیالیس سال ہے جبکہ صرف دو نئے ری ایکٹر زیر تعمیر ہیں۔

اس کے باوجود صدر جو بائیڈن 2035 تک ملک کو سو فیصد ''صاف توانائی‘‘ کے منصوبے کے تحت چلانے کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کے حامی ہیں اور ان کی انتظامیہ اس صنعت کی معاونت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

فرانس کے پاس اوسطاً 37 سال کی عمر کے 56 ری ایکٹرز ہیں۔ فرانس فی کس جوہری توانائی کا سب سے زیادہ تناسب استعمال کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر جوہری توانائی پر انحصار کم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد، اب وہ 2035-2037 کے درمیان چھ سے 14 نئے ری ایکٹرز کو سٹریم پر لانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

 تاہم نئی نسل کے پریشرائزڈ واٹر ری ایکٹرز (ای پی آر) جو فرانس کے قرضوں سے لدی ریاست کے زیر کنٹرول توانائی کے بڑے ادارے ای ڈی ایف کے زیر انتظام ہیں، وہ طویل تعمیراتی تاخیر اور لاگت میں اضافے  کے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال سے نئی ٹیکنالوجی کے قابل عمل ہونے کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے ہیں۔

برطانیہ کے پاس  نو جوہری ری ایکٹرز ہیں، جن میں سے بیشتر اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہیں اور حکومت 2050ء تک آٹھ نئے ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کوشش کو بھی بڑی تاخیر اور بڑھتے ہوئے اخراجات نے گھیر لیا ہے۔ برطانیہ کا واحد زیر تعمیر ری ایکٹر ہنکلے پوائنٹ ۔ سی بھی طے شدہ بجٹ اور تکمیل کے وقت سے کئی اوپر جا چکا ہے۔

چین اور روس سب سے فعال جوہری طاقتیں

آج سب سے زیادہ فعال سول جوہری طاقتوں میں چین اور روس شامل ہیں۔ چین اپنی مقامی مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور روس برآمدات کے لیے فعال ہے۔

چین کے پاس ستاون جوہری ری ایکٹر ہیںتصویر: Photoshot/picture alliance

ورلڈ نیوکلیئر انڈسٹری اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں دنیا بھر میں شروع کیے گئے 25 تعمیراتی منصوبوں میں سے تمام یا تو چین میں واقع ہیں یا پھر انہیں روسی جوہری صنعت کا تعاون حاصل ہے۔

دستیاب ڈیٹا کے مطابق  چین کے پاس اب ستاون ری ایکٹرز ہیں۔ بیجنگ روسی، امریکی اور کینیڈین ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے لیکن اس نے اپنی توجہ ملکی سطح پر واقع منصوبوں یا پاکستان کے ساتھ شراکت داری پر رکھی ہے۔

دوسری طرف بین الاقوامی منڈی پر روس کا غلبہ ہے۔ ماسکو جن پچیس ری ایکٹرز کی تعمیر میں سن دو ہزار کی دہائی سے شامل ہے، ان میں سے صرف پانچ خود روس میں ہیں جبکہ باقی بنگلہ دیش، بیلاروس، چین، بھارت، ایران، سلوواکیہ، ترکی اور مصر میں ہیں۔

2050ء تک جوہری تنصیبات دگنی

یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے تناظر میں دوسرے ممالک جوہری توانائی میں نئی ​​دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ بیلجیئم نے سن 2003 میں جوہری طاقت کو مرحلہ وار ختم کرنے کا قانون منظور کیا تھا تاہم اب وہ اس منصوبے کی تکمیل ایک دہائی یعنی سن دو ہزار پینتیس تک مؤخر کر رہا ہے۔

زاپوریژیا جوہری پلانٹ کے گرد حفاظتی زون قائم کیا جائے، گوٹیرش

جمہوریہ چیک، بھارت اور پولینڈ جوہری توانائی کو کاربن خارج کرنے والے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پر انحصار کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہالینڈ اور سویڈن بھی اس میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے آئی اے ای اے نے پیش گوئی کی کہ 2050ء  تک دنیا بھر میں جوہری توانائی کی تنصیبات دوگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایسا ہونے میں بہت سے چیلنج درپیش ہیں، ان میں ''ریگولیٹری اور صنعتی ہم آہنگی اور جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے میں پیش رفت‘‘ شامل ہے۔ دوسرے ممالک، جیسے نیوزی لینڈ، اخراجات اور حفاظتی خطرات کی وجہ سے جوہری توانائی کے سخت مخالف ہیں۔ اور ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں اس بات پر گہری تقسیم ہے کہ آیا اسے اس صنعت کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں۔

 ش ر⁄ ع ب (اے ایف پی)

جوہری توانائی مسئلہ بھی اور مسئلے کا حل بھی

04:18

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں