ایران قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، علی شامخانی
10 مارچ 2022
ایرانی سکیورٹی کے اعلیٰ عہدیدار علی شامخانی نے کہا ہے کہ امریکا عالمی جوہری ڈیل کی بحالی کے حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن ’ناقابل قبول منصوبہ جات‘ پر اصرار کر رہا ہے۔ ادھر روس نے ایک نئی رکوٹ ڈال دی ہے۔
اشتہار
ایران کی سکیورٹی کے اعلیٰ عہدیدار علی شامخانی کے مطابق ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ویانا میں جاری مذاکرات میں امریکا کا رویہ درست نہیں ہے۔ ان مذاکرات میں کوشش کی جا رہی ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل کو بحال کر لیا جائے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتطامیہ نے اس عالمی ڈیل سے یک طرفہ علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم امریکہ میں تبدیلی حکومت کے بعد موجودہ صدر جو بائیڈن بظاہر اس ڈیل کی بحالی چاہتے ہیں۔
گیارہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد کچھ امید دکھائی دی تھی تاہم روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد صورتحال ایک مرتبہ پھر پیچیدہ ہو گئی ہے۔
روس کی طرف سے نئی رکاوٹ
ایران کے اہم اتحادی ملک روس نے مطالبہ کر دیا ہے کہ اس ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے ایسی اس میں ایسی کوئی شق نہیں ہونی چاہیے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس اور ایران تجارت نہیں کر سکتے ہیں۔ مغربی ممالک یوکرین جنگ میں روس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر اس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
10 تصاویر1 | 10
اس تناظر میں علی شامخانی نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے سیاسی فیصلہ سازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے جوہری مذاکرات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن حکومت دراصل اس ڈیل کی بحالی چاہتی ہی نہیں ہے۔
شامخانی نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کی طرف سے جوہری ڈیل کو جلدی میں طے کرنے کی کوشش دراصل اشارہ ہے کہ وہ ایک جامع اور مضبوط ڈیل کے حق میں ہی نہیں ہے۔
’قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں‘
علی شامخانی نے اپنے ان خدشات کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی جوہری ڈیل کی بحالی ایران کے میزائل یا خلائی پروگرام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ شام خانی کے بقول ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں اور علاقائی پالیسیوں پر سجھوتہ نہیں کرے گا۔
دریں اثنا اس عالمی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوشش کرنے والے یورپی ممالک بشمول جرمنی، فرانس اور برطانیہ عارضی طور پر مذاکراتی عمل سے الگ ہو گئے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اہم امور طے پا چکے ہیں اور اب حتمی فیصلہ امریکہ اور ایران نے ہی کرنا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی طرف سے نئے مطالبات پیش کیے جانے کے بعد ایرانی چیف مذاکرات کار علی باقری کانی ویانا سے واپس وطن لوٹ گئےجہاں وہ تہران حکومت سے مشاورت کریں گے۔ سکے۔ ساتھ ہی ایران نے واضح کیا ہے کہ ملکی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔