1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی دہشت گردی انڈیکس میں پاکستان تیسرے نمبر پر: ایک تجزیہ

شکور رحیم، اسلام آباد19 نومبر 2014

ایک برطانوی تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP

لندن میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق عراق دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں پہلے جبکہ افغانستان دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

اس برطانوی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی سب سے بڑی ذمہ دار تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہے۔ 2000ء سے لے کر 2013ء تک کے درمیانی عرصے میں ٹی ٹی پی نے 778 حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں سے بارہ فیصد خود کش حملے تھے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پاس سب سے زیادہ جنگجو ہیں، جن کی تعداد چھتیس ہزار اور ساٹھ ہزار کے درمیان بنتی ہے۔

قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی ’آپریشن ضربِ عضب‘ کی وجہ سے دہشت گردانہ حملوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس برطانوی ادارے کی یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی ’آپریشن ضربِ عضب‘ کی وجہ سے دہشت گردانہ حملوں میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

تاہم ملک میں انسداد دہشت گردی کے لیے تمام متعلقہ اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کے لیے قومی سطح کے ایک فعال ادارے کی ضرورت اب بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی، نیکٹا) پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ ہفتے پہلی مرتبہ نیکٹا کے کل وقتی قومی رابطہ کار کی تقرری تو کر دی تھی مگر اس ادارے کی فعالیت کے حوالے سے ابھی بھی خاموشی نظر آتی ہے۔

یوں تو نیکٹا کا قیام دو ہزار آٹھ میں عمل میں آیا تھا مگر ابھی تک اس ادارے میں جان نہیں ڈالی جا سکی۔ سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح کے ادارے نیکٹا کا فعال ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیکٹا کے لیے مطلوبہ فنڈز مہیا نہیں کیے جا رہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اس مسئلے پر توجہ نہیں دے رہی۔

عراق دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں پہلے نمبر پر ہےتصویر: AHMAD AL-RUBAYE/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’لگتا یہی ہے کہ حکومت کی سیاسی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے، کیونکہ جب سے حملے کم ہوئے ہیں، حکومت سمجھتی ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے ترجیح جو ہے، وہ انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی ہے۔ سکیورٹی کوئی ترجیح نہیں۔ اسی وجہ سے پونے دو سال سے کوئی خاطر خواہ پیشرفت سامنے نہیں آ رہی۔‘‘

حکومت کی جانب سے متعدد بار نیکٹا کو ایک فعال ادارہ بنانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان پر عمل ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان باہمی تعاون کا فقدان رہا ہے۔ اس ضمن میں فوج کے زیر اثر اور سویلین حکومت کے ماتحت خفیہ ایجنسیوں کے درمیان عدم تعاون بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ حکومت کو بہت پہلے اس بارے میں مؤثر قانون سازی کر لینا چاہیے تھی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کیا یہ اتھارٹی اتنی پاور فل ہو سکتی ہے جس میں تمام جو باقی ادارے ہیں، وہ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے رابطے کا کام کریں؟ وہ ابھی تک اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ جب تک آپ سیاسی اور عسکری طور پر یہ فیصلہ نہیں کرتے، تب تک یہ اختیارات آگے نہیں جائیں گے۔ اس میں سب سے اہم میرے خیال سے جو ذمہ داری ہے، اس میں نہ صرف سیاسی، عسکری بلکہ سب سے زیادہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ جب تک پارلیمنٹ حقوق نہیں دے گی، یہ ادارہ فعال نہیں ہوگا۔‘‘

خیال رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے موجودہ حکومت کی سہ جہتی قومی سلامتی پالیسی میں بھی نییکٹا کی فعالیت کو اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم کی سربراہی میں نیکٹا بورڈ کا اجلاس ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ ہونا لازمی تھا، تاہم آج تک یہ اجلاس ایک مرتبہ بھی منعقد نہیں ہو سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں