عالمی رد عمل کے بعد 'فیئر اینڈ لولی' کا نام بدلنے کا فیصلہ
26 جون 2020
یونی لیور کمپنی نے رنگ گورا کرنے کا دعوی کرنے والی معروف کریم ''فیئر اینڈ لولی'' کے نام سے لفظ 'فیئر'' یعنی گورے کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کریم جنوبی ایشائی ممالک میں کافی مقبول ہے۔
اشتہار
عالمی سطح پر رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور نسلی تفریق کی مخالفت میں جو تازہ مہم شروع ہوئی ہے اس کے مد نظر معروف کمپنی یونی لیور نے جلد کو چمکانے والی اپنی معروف کریم ''فیئر اینڈ لولی'' سے فیئر یعنی گورا کے لفظ کو ہٹا کر اسے از سر نو برانڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ کریم کافی مقبول ہے۔ عام طور پر لوگ گورا دکھنے کے لیے چہرے پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔
کمپنی کے اس فیصلے کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس سے معاشرے میں کافی فرق پڑے گا تاہم کئی حلقے اسے محض ایک شعبدہ بازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کا اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اس طرح کی کریم کو بازار میں فروخت کرنے سے بازرکھنا چاہیے۔
یونی لیور کمپنی میں بیوٹی اور پرسنل کیئر ڈویژن کے صدر سنی جین نے اس فیصلے سے متعلق کہا، ''ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ گورا چٹّا، صباحت، اور درخشاں جیسے الفاظ حسن و جمال کے ایک خاص تصور کی ہی ترجمانی کرتے ہیں اور ہمارے خیال سے یہ صحیح نہیں ہے اور ہم اس کو درست کرنا چاہتے ہیں۔''
ایشیائی ممالک میں گورے رنگ کی چاہت اور اس سے لگاؤ ایک عام بات ہو سکتی ہے لیکن بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیائی ممالک میں گورے پن کر نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ گوری رنگت کے لوگوں کو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے جیسے سماج میں انہیں کوئی خاص مقام حاصل ہو۔
بھارت میں اس کریم کا اشتہار عام طور پر بالی ووڈ کے بڑے ستارے اور نوجوان ماڈلز کرتے ہیں۔ اس طرح کے ٹی وی اشتہارات میں چہرے کے ایسے دو رخ پیش کیے جاتے رہے ہیں جس میں ایک پر کریم کے استعمال سے گوری چمک ہے تو دوسرا ماند اور کھردرا ہے۔ ایسے اشتہارات میں نوجوان لڑکیوں کو کریم کے استعمال سے گوری رنگ حاصل کر کے سماج میں اچھا مقام حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ اس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گورا رنگ ہونے سے اچھے جابز ملنے اور اچھا شوہر ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں موت کے خلاف حالیہ دنوں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور 'بلیک لا ئیوز میٹر' کے تحت سیاہ فام افراد کے حق میں جو مہم چلائی گئی اس میں ایسی تمام کمپنیوں پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی ہے جو جلد کو گورا کرنے کی کریم فروخت کرنے کے لیے ایسے اشتہارات شائع و نشر کرتے ہیں جس سے نسل پرستی کو فروغ ملتا ہے۔
بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلانے والی تنظیم آل انڈیا پروگریسیو وومن ایسو سی ایشن سے وابستہ کویتا کرشنن نے ان کمپنیوں کے اشتہارات اور مہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ، ''ان تمام کمپنیوں کو ایسے زہریلے کلچر کے فروغ کے لیے جواب دینا ہوگا۔''
ان کا کہنا تھا کہ بعض دکانداروں نے تو ان کے خود کے ملیح رنگ کو دیکھ کر ان سے ایسی کریم خریدنے کا مشورہ دیا۔ ''انہیں ایسی مصنوعات کو مکمل طور پر ترک کردینا چاہیے۔''
بھارت میں یونی لیور کی شاخ 'ہندوستان لیور' نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ فیئر اینڈ لولی کا نام بدل کر کیا رکھا جائے گا۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔