عالمی رہنماؤں کی ایتھوپیا میں فوری جنگ بندی کی اپیل
5 نومبر 2021
یورپی یونین نے ایتھوپیا میں فوراً اور بامعنی جنگ بندی کی اپیل ایسے وقت کی ہے جب تیگرائی علاقے میں جاری تصادم کا ایک سال مکمل ہو رہا ہے اور باغی فورسز اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم کئی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اب دارالحکومت ادیس ابابا کی جانب پیش قدمی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
گزشتہ ایک برس کے دوران تیگرائی خطے میں تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) اور اس کے اتحادیوں کی حکومتی فورسز کے ساتھ جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں دیگر بے گھر ہوچکے ہیں۔
یورپی یونین نے ملک کے بکھر جانے اور بڑے پیمانے پر مسلح تصادم کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ غیر مشروط طور پر سیاسی بات چیت فوراً شروع کردیں۔
یورپی یونین کے اس اپیل کی امریکا، اقو ام متحدہ اور دیگر افریقی ملکوں نے بھی تائید کی۔ یہ اپیل ایسے وقت کی گئی ہے جب قرن افریقہ کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی جیفری فیلٹ مین ادیس ابابا پہنچے ہیں۔ وہ حکومت کو تیگرائی اور اورومو فورسز، جس نے دارالحکومت کے قریب کئی اہم شہروں پر قبضہ کرلیا ہے، کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
بین الاقوامی برادری کا کیا کہنا ہے؟
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بتایا کہ انہوں نے ایتھوپیائی وزیر اعظم ابی احمد سے با ت کی ہے اور انہیں مذاکرات کے لیے ماحول سازی کے خاطر اپنی خدمات پیش کی ہیں تاکہ جنگ کو روکا جا سکے۔
یوگینڈا کے صدر یوویری موسووینی نے اعلان کیا کہ مشرقی افریقی بلاک، 'انٹرگورنمنٹل اتھارٹی آن ڈیولپمنٹ (آئی جی اے ڈی)‘ کی 16 نومبر کو ایک میٹنگ ہونے والی ہے، جس میں ایتھوپیا میں جاری جنگ کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔
کینیا کے صدر اوہورو کینیاتا کا کہنا تھا،”لڑائی رک جانی چاہیے۔"
افریقی یونین کمیشن کے چیئرمین موسی فقیہ محمد نے کہا کہ انہوں نے امریکی ایلچی فیلٹ مین سے تصادم کے ممکنہ سیاسی حل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
ادیس ابابا میں صحافی ماریہ گرتھ نیکولیسکیو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی خصوصی ایلچی ایتھوپیا کو جنگ روک دینے اور بات چیت شروع کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں،’’اگر تصادم جاری رہا تو (خطے کا) سیاسی استحکام اور معیشت متاثر ہو سکتا ہے۔"
متحارب گروپوں کا ردعمل کیا ہے؟
بین الاقوامی برادری کے اپیلوں کے باوجود ایتھوپیائی وزیراعظم باغیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے اپنے موقف پر مصر ہیں۔
ایتھوپیائی کانگریس کے ایک معاون نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا، ”حکام کے ساتھ باتیں ہی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن جب ابی کی سطح پر اور تیگرائی فورسز کے سینیئر عہدیداروں کی سطح پر بات چیت ہو گی، مطالبات کا دائرہ وسیع ہو گا اور ابی بات چیت کرنا نہیں چاہتے۔"
وزیر اعظم ابی نے منگل کے روز ملک گیر ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور شہریوں سے سوشل میڈیا پر اپیل کی تھی کہ تیگرائی فورسز کو”دفن" کردینے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔ فیس بک نے اس کے اگلے دن ہی یہ کہتے ہوئے یہ پوسٹ ہٹا دی کہ اس سے تشدد کو بھڑکانے کے خلاف اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ ٹی پی ایل ایف کے ترجمان کی اس ٹوئٹ کے بعد کیا گیا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ادیس ابابا سے 325 کلومیٹر دور کیمیسے قصبہ پر قبضہ کرنے کے لیے ان کی فورسز نے اپنے اتحادی اومورو لبریشن آرمی (او ایل اے) کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔
اواخر ہفتہ کو ٹی پی ایل ایف نے دارالحکومت تک سپلائی کو روکنے کے مقصد سے جبوتی کی بندرگاہ کو جانے والی سڑک کے قریب واقع دو شہروں پر حملے کیے تھے۔ ایتھوپیائی سیکورٹی فورسز نے بھی دارالحکومت میں ٹی پی ایل ایف کے حامیوں کو گرفتار کرنے کی اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔
تیگرائی کے ایک وکیل نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پورے شہر سے ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اور دیگر بہت سے تیگرائی باشندوں کی طرح انہوں نے بھی خود کو اپنے گھر میں محصور کرلیا ہے کیونکہ انہیں اپنی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا کے تیگرائی خطے میں پچھلے ایک برس سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ خشک سالی نے چارلاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ تمام فریقین جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ امریکا نے تشویش ناک صورت حال کے مدنظر اپنے سفارت خانے کے غیر اہم اسٹاف کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں جمعے کے روز ایتھوپیا کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)