عالمی رہنما ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ کا اعلان کریں، اقوام متحدہ
13 دسمبر 2020
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے دنیا بھر کے سربراہان مملکت و حکومت سے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثرہ ممالک اپنے ہاں ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ کا اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔
اشتہار
گوٹیرش نے کہا کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورت حال بہت 'ڈرامائی‘ شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اور دور رس اقدامات کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل نے یہ بات اقوام متحدہ کی ایک ایسی ورچوئل ماحولیاتی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو پیرس میں 2015ء میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے پانچ برس پورے ہونے کے موقع پر منعقد کی گئی۔
انٹونیو گوٹیرش نے اس سمٹ سے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بلا جھجھک اپنے اپنے ممالک میں 'ماحولیاتی ایمرجنسی‘ کا اعلان کریں تا کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ کی یہ ایک روزہ آن لائن ماحولیاتی سمٹ کل ہفتے کے روز قبل از دوپہر شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہی اور اس میں بیسیوں ممالک کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/C. Bleiker
7 تصاویر1 | 7
سیکرٹری جنرل گوٹیرش نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے وجہ بننے والے حالات میں فوری بہتری کا عمل شروع نہ کیا گیا، تو رواں صدی کے آخر تک زمین کے درجہ حرارت میں تین ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد تک کا اضافہ ممکن ہے۔
سمٹ کے شرکاء سے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو کم سے کم رکھنے کے لیے اب تک جتنے بھی اقدامات کیے گئے ہیں، وہ مطلوبہ ہدف سے تشویش ناک حد تک کم ہیں۔
اشتہار
'حقیقت سے انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا‘
انٹونیو گوٹیرش کے الفاظ میں، ''کیا آج کوئی بھی شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ ہمیں تحفظ ماحول کے حوالے سے ایک ڈرامائی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ اسی لیے میں تمام عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کریں۔ زمینی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات اس وقت تک جاری رہنا چاہییں، جب تک زہریلی اور ماحول کے لیے نقصان دہ کاربن گیسوں کے اخراج کی شرح نیوٹرل نہیں ہو جاتی۔‘‘
اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی اور بھارتی رہنماؤں نے ان عزائم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں کاربن گیسوں کے اخراج کی شرح میں واضح کمی کریں گے۔
ماحول دوستی کے آٹھ طریقے
کار چلانے کے بجائے سائیکل پر منتقل ہونا ایک ماحول دوست عمل ہے۔ درج ذیل طریقوں سے ماحول دوست بنا جا سکتا ہے.
تصویر: Reuters/E. Su
سفر ذمہ داری سے کریں
ایک مقام سے دوسری جگہ جانے کے لیے پیدل چلنا یا سائیکل کا استعمال کاربن اخراج میں کمی کا باعث ہو گا۔ یہ ایک صحت مندانہ سرگرمی بھی ہو گی۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ اپنی سالانہ چھٹیاں استعمال ہی نہ کریں بلکہ کاربن فری سفری مہم ممکن ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
مناسب شاپنگ پر توجہ مرکوز رکھیں
شاپنگ میں بھی احتیاط کریں کہ کونسی شے زمین کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ماحول دوست اشیا کی خریداری ایک مناسب قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ ایسی اشیا کی تشہیر بھی کریں جو ماحول کے لیے بہتر ہوں۔ اس تناظر میں استعمال شدہ اشیا کے خریدنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
تصویر: Imago/Westend61
خوراک ضائع کرنے سے گریز کریں
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ خوراک کا استعمال احتیاط سے کیا جائے تو دنیا بھر میں ضائع ہونے والی خوراک کے حجم میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ بچی ہوئی خوراک پھینکنے کے بجائے اسے بدیر کھا لینا بہتر ہے۔ ضائع شدہ خوراک کو مکان کے صحن میں دفن کرنے سے عمدہ کھاد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
ضرورت کے مطابق بتیاں روشن کریں
بجلی کے استعمال کو محدود کرنا بھی ماحول دوستی ہے۔ ضرورت کے مطابق بتیاں روشن کریں۔ لیپ ٹاپ کو استعمال کے بعد پوری طرح شٹ ڈاؤن کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ٹیلی وژن کا بھی بے جا دیکھنا بینائی کے مضر اور صحت دوستی نہیں۔ توانائی ضرورت مطابق استعمال کی جائے تو یہ زمین کے لیے بھی بہتر ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel
ماحول دوستی کے حق میں آواز بلند کریں
اگر آپ نے ابھی تک ماحول دوستی کے لیے آواز بلند نہیں کی تو اب عملی طور پر گلوبل کلائمیٹ ایکشن کا حصہ بن جائیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سڑکوں پر مظاہرے شروع کر دیے جائیں بلکہ دوستوں، احباب اور ہمسایوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق آگہی اور معلومات دینا بھی ایک بہترعمل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Pempel
صحت بخش خوراک کھائیں
صحت مند زندگی بسر کرنے کے لیے آرگینک خوراک کا انتخاب اب اہم ہو چکا ہے۔ زمینی ماحول کے لیے بہتر سمجھی جانے والی اشیا کھائیں۔ زمین پر جنگل بردگی کی ایک بڑی وجہ مال مویشیوں کا پالنا خیال کیا جاتا ہے۔ یہ پالتو جانور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کا بھی بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ ماحول دوست خوراک کھانا زمین سے دوستی ہے۔
تصویر: Colourbox
ری سائیکل اور صرف ری سائیکل
ری سائیکلنگ اس وقت ایک اہم معاملہ ہے۔ یاد دہانی کے طور پر بتانا ضروری ہے کہ پلاسٹک آلودگی سے اجتناب کریں۔ پلاسٹک کی مصنوعات سمندروں کے لیے بھی شدید نقصان دہ ہیں۔ کئی اشیا کو آپ ری سائیکل کر کے گھریلو اشیا بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پلاسٹک کی ایک بوتل لیمپ یا جانور کے فیڈر کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/S. Stache
فطرت سے محبت پیدا کریں
زمین دوستی کا ایک بہتر عمل فطرت سے محبت کرنا ہے۔ گھروں سے نکل کر قدرتی حسن کا مشاہدہ اور سحر انگیز مناظر کی تلاش ایک بہترین سرگرمی ہے۔ اس سیاحتی مہم کا ماحول پر براہ راست کچھ اثر نہ بھی ہو لیکن آپ کے دل میں قدرتی ماحول سے محبت پیدا ہو گی۔ ایسے فطری ماحول کا تحفظ ضروری ہے۔ یہ ماحول دوستی بھی ہے۔
تصویر: Imago/All Canada Photos
8 تصاویر1 | 8
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اگلے ایک عشرے کے دوران شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والے بجلی کی مد میں مزید بہت زیادہ سرمایہ کاری کرے گا اور ان ماحول دوست ذرائع سے پیدا کردہ بجلی کا حجم 1200 گیگا واٹ تک بڑھا دیا جائے گا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت بھی اپنے ہاں صاف توانائی کے ذرائع کی ترویج کے لیے کوشاں ہے اور نئی دہلی حکومت مستقبل میں کاربن گیسوں کے اخراج میں اس حد تک کمی کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جو پیرس کے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں طے کی گئی تھی۔
جرمنی کی طرف سے مزید امداد
جرمنی کا شمار مغربی ترقی یافتہ ممالک میں سے ان ریاستوں میں ہوتا ہے، جو اپنے ہاں کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید کمی اور ہوا، پانی اور شمسی توانائی سے بجلی کے اور زیادہ حصول کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی ایک ذمےد اری یہ بھی ہے کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے غریب ممالک کی مزید مدد کریں۔ میرکل نے اس مد میں غریب اور ترقی پذیر ریاستوں کے لیے جرمنی کی طرف سے تقریباﹰ پانچ سو ملین یورو کی اضافی امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا۔
م م / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)
اس دنیا کا تحفظ کیسے ممکن ہو؟
ہر سال کے طرح اس مرتبہ بھی انسانوں نے 2019ء کے مقرر کردہ تمام تر قدرتی وسائل انتیس جولائی تک استعمال کر لیے۔ اسلام اور دیگر مذاہب بھی اس دنیا اور قدرت کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
پانی، زندگی کا اہم جزو
دنیا کے کچھ خطوں میں تازہ پانی تک رسائی کو انتہائی غیر سنجیدہ طور پر لیا جاتا ہے تاہم حقیقت میں یہ ایک ’عیاشی‘ ہے۔ دنیا میں موجود پانی میں سے تازہ اور پینے کے لیے آلودگی سے پاک پانی کا ذخیرہ صرف 2.5 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی نصف سے زائد برف ہے۔ سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اس اہم جنس کی شدید کم یابی کا شکار ہو جائے گا، جس سے انسانی زندگی شدید متاثر ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress
زیر کاشت زمین، ایک نیا سونا
زیر کاشت زمین کے حصول کی خاطر دنیا بھر میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اجناس کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی انسان اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی سے اس زمین کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ چین اور سعودی عرب اس کوشش میں ہیں کہ وہ افریقہ میں قابل کاشت زمینیں خرید لیں۔ نئے دور میں یہ زمین ایک نیا سونا بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
فوسل فیولز، قدیمی ذرائع توانائی
زمین سے حاصل کردہ قدیمی ذرائع توانائی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ تیل، گیس اور اسی طرح کے دیگر فوسل فیولز کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور لیبیا جیسے ممالک کے لیے یہ زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں موجود قدرتی گیس اور تیل کی ذخائر کے خاتمے کے بعد ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpaH. Oeyvind
کوئلہ، اہم مگر آلودگی کا باعث
جرمنی جیسے ممالک بھی اگرچہ توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف قدم بڑھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن اچھے کوئلے کے ذخائر بھی ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پولینڈ میں بھورے کوئلے کے وسیع تر ذخائر سن دو ہزار تیس تک ختم ہو جائیں گے۔ سخت کوئلے کی کانیں شاید باقی بچیں گی لیکن وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔
تصویر: picture alliance/PAP/A. Grygiel
ریت، ہر طرف اور کہیں بھی نہیں
اگر ہم صحرا کو سوچیں تو ریت کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی قدرتی پیداوار کا عمل انتہائی سست ہے۔ ریت بھی توانائی کا ایک متبادل ذریعہ ہے لیکن تعمیراتی مقاصد کی خاطر اسے اتنی تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ بالخصوص افریقہ، جہاں 2050ء آبادی دوگنا ہو جائے گی، تب وہاں یہ جنس نایاب ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Förster
ناپید ہوتے نایاب جانور
انسانوں کے لاپروا رویوں کی وجہ سے دنیا میں جانداروں کی کئی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ پیش رفت اس زمین کے حیاتیاتی تنوع کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ شکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ خطرہ دوچند ہو چکا ہے۔ ان اہم جانوروں کے ختم ہونے سے انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/I. Damanik
وقت، کیا یہ بھی ختم ہونے والا ہے؟
تو معلوم ہوتا ہے کی تمام اہم قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا وقت بھی ختم ہونے کو ہے؟ اب بھی کچھ وقت باقی ہے اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر آئندہ بارہ برسوں کے لیے ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ نافذ کر دی جائے تو انسانوں کی پھیلائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگر عمل نہ کیا تو جلد ہی وقت بھی ختم ہو جائے گا۔