عالمی سائبر حملوں کے امریکی الزام کی ایران کی جانب سے مذمت
صائمہ حیدر
24 مارچ 2018
تہران حکومت نے امریکا کی جانب سے نو ایرانی باشندوں اور ایک ایرانی کمپنی کو دنیا بھر میں سائبر حملوں کا ملزم ٹھہرانے کی مذمت کی ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ یہ واشنگٹن کے جارحانہ رویے کی ایک اور مثال ہے۔
اشتہار
امریکا نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ نو ایرانی باشندے اور ایک ایرانی کمپنی امریکا سمیت دنیا بھر میں یونیورسٹیوں اور درجنوں کمپنیوں کا ڈیٹا ہیک کرنے میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکا نے اپنے الزام میں یہ بھی کہا کہ ایرانی افراد اور ’مابنا انسٹیٹیوٹ‘ نامی کمپنی نے سائبر حملے ایران اور بالخصوص ایرانی عسکری سپاہ اسلامی پاسداران انقلاب کے ایما پر کیے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام غاسمی نے آج ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا ہے جس میں امریکی الزامات کی مذمت کی گئی ہے۔ غاسمی کے مطابق،’’ ایرانی آئی ٹی کمپنی کے ملازمین کے خلاف یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ایران کے حوالے سے امریکی عدم اطمینان کے عکّاس ہیں۔‘‘
غاسمی نے امریکا سے نو ایرانی شہریوں اور آئی ٹی کمپنی پر لگائے گئے الزامات کا ثبوت فراہم کرنے کا مطابہ بھی کیا۔ غاسمی کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن حکومت ثبوت مہیا نہیں کرتی تو ان الزامات کو ایرانیوں کی سائنسی ترقی روکنے کی ایک چال سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جائے گا۔
گزشتہ روز ٹرمپ انتظامیہ نے نو ایرانی باشندوں اور ایک ایرانی کمپنی پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے سینکڑوں امریکی اور دیگر بین الاقوامی یونیورسٹیوں، درجنوں کمپنیوں اور امریکی حکومت کے بعض اداروں کو ہیک کرنے کی کوشش کی ہے۔
علاوہ ازیں امریکی محکمہ خزانہ نے اپنی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ان نو افراد اور مابنا نامی ایرانی انسٹیٹیوٹ پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ چرائی ہوئی معلومات ایرانی پاسداران انقلاب نے استعمال کیں یا پھر ایران نے اپنے مفاد میں انہیں فروخت کیا۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔