عالمی سطح پر خوراک کی کمی، نئے متبادل راستے
27 اپریل 2011Serge Verniau کا مشن ہے کہ وہ دنیا کو اس بات پر مائل کریں کہ وہ چکن ونگز اور دیگر مرغن غذاؤں کے بجائے ایسے حشرات الارض کو اپنی خوراک کا حصہ بنائے، جو پروٹین اور وٹامن سے بھرپور ہوتے ہیں۔ لاؤس میں اقوام متحدہ کی تنظیم FOA کے نمائندے سرگئی کہتے ہیں کہ ان کا خواب ہے کہ ٹوکیو سے لے کر لاس اینجلس اور فرانس تک لوگ حشرات الارض کھائیں۔
اس حوالے سے سرگئی نے ایک ابتدائی منصوبہ بھی چلایا، جس کے نتائج کافی حوصلہ افزاء رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر 2012ء میں کھانے کے قابل حشرات پر پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں وہ اس امر پر تفصیلی گفتگو کریں گے کہ دنیا میں خوراک کی کمی کا مسئلہ ان چھوٹے کیڑے مکوڑوں سے کافی حد تک ختم ہو سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے سرگئی نے کہا کہ دنیا کی زیادہ تر آبادی شہروں میں سکونت پذیر ہے اور اس تمام آبادی کو صرف گوشت سے ہی پروٹین کی مطلوبہ مقدارحاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے متبادل طریقوں پرغور ناگزیر ہے۔
دنیا میں پائی جانے والی خوراک کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے یہ نیا خیال لاؤس جیسے ایک غریب ترین ملک کےایک شہری کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ لاؤس کی کل آبادی چھ ملین ہے، جس میں سے ایک چوتھائی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق لاؤس میں پانچ برس کی عمر سے کم قریب چالیس فیصد بچے خوارک کی کمی کا شکار ہیں۔ سرگئی کے بقول لاؤس میں چاول ایک اہم غذا ہے، جو بھرپور غذائیت نہیں رکھتی، اس لیے حشرات کو خوارک کا حصہ بنانے سے ضروری وٹامن اور پروٹین انسانی جسم کو میسر آ سکتے ہیں۔
اگرچہ لاؤس میں حشرات الارض خوراک کا حصہ ہیں لیکن وہاں لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کی افزائش کیسے کی جا سکتی ہے۔ لاؤس کی نیشنل یونیورسٹی کے شعبہ زراعت سے وابستہ Oudom Phonekhampheng کے بقول لوگ ان کیڑے مکوڑوں کو پکڑتے ہیں اور کھا جاتے ہیں، اس طرح یہ اب نہ صرف ختم ہو رہے ہیں بلکہ ان کی نسلوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لوگوں کو مستقبل کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کی کمی پر قابو کے علاوہ حشرات الارض کی افزائش نسل کے کام کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے ادارے FOA سے وابستہ ماہر حشرات الارض Yupa Hanboonsong کے بقول حشرات کی فارمنگ ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ وہ اسے گرین پروٹین کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حشرات کی افزائش نسل ان دیگر ممالک میں بھی ہونی چاہیے، جہاں شوق سے انہیں کھایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جھینگروں سے ایسا پاؤڈر بھی تیار کیا جا سکتا ہے، جس میں بہت زیادہ پروٹین ہوتی ہے۔ کئی ماہرین کے بقول یہ پاؤڈر ایسے بسکٹوں میں شامل کیا جا سکتا، جو ان علاقوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں جہاں تنازعات کے باعث لوگ خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف